Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روئٹرز: مشکلات میں گِھرے خامنہ ای سعودی ایران معاہدے کے خواہاں تھے

رواں ماہ چین کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بیجنگ میں معاہدہ ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اپنی سیاسی اور معاشی تنہائی کو دور کرنے کا خواہش مند ایران گزشتہ دو برس سے اپنے دیرینہ حریف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
دو ایرانی عہدیداروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گزشتہ برس ستمبر میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے دو طرفہ مذاکرات کی بحالی میں سست روی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور اپنی ٹیم کو طلب کر کے مذاکرات کے عمل میں تیزی لانے کے طریقوں پر بات چیت کی تھی۔
گزشتہ ہفتے چین کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بیجنگ میں معاہدہ ہوا تھا۔
مذاکرات میں شامل ایک ایرانی سفارت کار نے کہا کہ ’چین نے عمان اور عراق میں ہونے والی بات چیت کے دوران خلیج کو کم کرنے اور حل نہ ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے لیے تہران اور ریاض دونوں کی  پر آمادگی ظاہر کی۔‘
یہ معاہدہ سات سال کے بعد ہوا، دونوں ممالک کے درمیان تعقات تعطل کا شکار تھے۔ سعودی عرب کے لیے معاہدے کا مطلب سکیورٹی میں بہتری ہے۔ مملکت نے تیل کی تنصیبات پر حملوں کا الزام ایران پر لگایا تھا جس سے اس کی آدھی سپلائی بند ہو گئی تھی۔
ایران نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدعان نے کہا ہے کہ بہت جلد ایران میں سعودی عرب سرمایہ کاری کرے گا۔
تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے تھے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے ایک رپورٹر کے مطابق ایک چینی سفارتکار نے معاہدے کے حوالے سے کہا کہ ’دونوں ممالک کے لیے جو اہم چیز ہے وہ تعلقات کی بہتری کے لیے اخلاص اور سنجیدگی ہے۔‘

دسمبر 2022 میں چین کے صدر نے ریاض کا دورہ کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سعودی حکام کے مطابق سعودی عرب جو واشنگٹن کا اہم ترین عرب اتحادی ہے، دو سال قبل عراق اور عمان میں نے ایران کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بات چیت کی۔
چینی صدر شی جِن پنگ نے جب ریاض کا دورہ کیا تو سعوی ولی عہد محمد سلمان کے ستاھ ملاقات میں چینی صدر نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت کے لیے ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا۔
سعودی عہدیدار کے مطابق ’ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان نے اس کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ ایران کے ساتھ گزشتہ مذاکرات کے ادوار کی سمری چین کو بھیجیں گے اور مذاکرات کی بحالی سے متعلق کیا سوچتے ہیں، اس منصوبے سے آگاہ کریں گے۔‘
عہدیدار کا کہنا ہے کہ فروری میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی حکام نے ریاض کے تجاویز کو ایران تک پہنچایا جو ایرانی حکام نے تسلیم کیے۔

چین کی ثالثی ’بہتری آپشن‘

ایک ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ اس معاہدے میں سکیورٹی خدشات سے لے کر اقتصادی اور سیاسی امور کے معاملات شامل ہیں۔  
انہوں نے کہا کہ ’میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن ہم نے اس پر اتفاق کیا کہ کوئی بھی ملک دوسرے کے لیے عدم استحکام کا باعث نہیں بنے گا۔ ایران خطے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا، خاص طور پر یمن میں تاکہ ریاض کی سکیورٹی میں مدد کر سکے۔‘
’دونوں فریق خلیج فارس میں سلامتی کو برقرار رکھنے، تیل کے تجارت کے راستے کو محفوظ بنانے اور علاقائی مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کریں گے اور تہران اور ریاض ایک دوسرے کے خلاف فوجی جارحیت میں ملوث نہیں ہوں گے۔
گزشتہ کئی سال سے سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد یمن میں حوثی تحریک کے خلاف مصروف ہے۔

فروری میں چین اور ایران کے صدور کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایران نے حوثی باغیوں کی کتنی حمایت کی ہے۔ یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا۔ خلیج کے سنی ممالک نے ایران پر خطے میں شیعہ پراکسیز کے ذریعے مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ ایران نے اس کی تردید کی ہے۔
سعودی عہدیدار کے مطابق ’حوثیوں کو ہتھیار، تربیت، نظریاتی پروگرامز، پروپیگنڈا اور مہارت کی فراہمی کا ایران سب سے بڑا سپلائر ہے اور ہم اس کا مرکزی شکار ہیں۔ ایران بہت کچھ کر سکتا ہے اور اس کو کرنا چاہیے۔‘
خامنہ ای کے قریبی حلقے کے ذریعے کے مطابق ایران نے مذاکرات کی سربراہی کے لیے قومی سلامتی کے ایک سینیئر عہدیدار علی شامخانی کو چنا ہے جو نسلی اعتبار سے عرب ہیں۔
مذاکرات میں شامل ایرانی سفارت کار نے کہا کہ ’چین نے عمان اور عراق میں ہونے والے مذاکرات کے دوران خلیج کو کم کرنے اور حل نہ ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے لیے تہران اور ریاض دونوں کی مدد پر آمادگی ظاہر کی۔
ایک ایرانی عہدیدار نے ملاقات کے بارے میں بریف کرتے ہوئے کہا کہ ’واشنگٹن پر اعتماد کی کمی اور بیجنگ کی سعودی عرب اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے چین ایک بہترین آپشن تھا۔ توانائی کی ضروریات کے لیے چین بھی ایک پرامن مشرق وسطٰی سے فائدہ حاصل کر سکے گا۔‘
ایران کی فیصلہ ساز اشرافیہ کے قریب ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ’اس معاہدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تہران اور ریاض کے درمیان کوئی مسئلہ یا تنازع نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر مستقبل میں کچھ ہوا بھی تو وہ ’کنٹرولڈ‘ہوگا۔‘

شیئر: