Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ سے شاہی عصا میں جڑے ہیرے ’سٹار آف افریقہ‘ کی واپسی کا مطالبہ

شاہ چارلس سوم کی تاج پوشی کی تقریب چھ مئی کو ہو گی۔ (فوٹو: روئٹرز)
جنوبی افریقہ کے بعض شہری برطانیہ سے دنیا کے سب سے بڑے ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس ہیرے کو ’سٹار آف افریقہ‘ کہا جاتا ہے جو شاہی عصا میں جڑا ہوا ہے۔
شاہ چارلس سوم دو دن بعد سنیچر کو ہونے والی تاج پوشی کی تقریب میں یہ شاہی عصا پکڑیں گے۔
اس ہیرے کا وزن 530 قیراط ہے، یہ 1905 میں جنوبی افریقہ میں دریافت ہوا تھا اور برطانیہ کے شاہی خاندان کو نوآبادیاتی حکومت نے پیش کیا تھا۔
اُس وقت جنوبی افریقہ برطانیہ کی حکمرانی کے زیرتسلط تھا۔
ایسے وقت میں جب نوآبادیاتی دور میں چوری کیے گئے فن پارے اور نوادرات کی واپسی کے لیے عالمی سطح پر آوازیں اٹھ رہی ہیں، جنوبی افریقہ کے بعض شہری بھی ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جوہانسبرگ میں وکیل اور سماجی کارکن موتھوسی کمناگا نے ہیرے کی واپسی کے لیے ایک آن لائن پٹیشن کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’ہیرا جنوبی افریقہ کو واپس کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے قومی افتخار، ورثے اور ثقافت کی علامت ہے۔
ہیرے کی واپسی کے لیے اس آن لائن پٹیشن پر تقریباً آٹھ ہزار دستخط ہوئے ہیں۔
یہ ہیرا کلینن ون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شاہی عصا میں موجود ہیرا کلینن ہیرے سے کاٹا گیا تھا جو تین ہزار 100 قیراط کا پتھر تھا۔ یہ ہیرا پریتوریا کے قریب دریافت ہوا تھا۔
اس ہیرے کا ایک چھوٹا حصہ جو کلینن ٹو کے نام سے مشہور ہے، شاہی تاج میں جڑا ہے۔ یہ شاہی تاج برطانیہ کے بادشاہوں کے سر پر اہم مواقعوں پر دیکھا گیا ہے۔ شاہی نوادرات ٹاور آف لندن میں رکھے گئے ہیں۔

لندن میں تاج پوشی کی تقریب کے لیے تیاریاں کی گئی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کلینن ہیرے کی ایک مکمل نقل جو ایک آدمی کی مٹھی کے برابر ہے، کیپ ٹاؤن کے ڈائمنڈ میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
ایک شہری محمد عبداللہ نے کہا کہ یہ ہیرا اپنے ملک واپس آنا چاہیے۔ انہوں نے ہم پر ظلم کرتے ہوئے یہ ہم سے چھینا ہے۔
ایسے بھی کچھ شہری ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اس ہیرے کے بارے میں کچھ خاص محسوس نہیں ہوتا۔
ایک مقامی شہری ڈیکتسنگ نزابزابا کا کہنا ہے کہ ’میرا نہیں خیال کہ اب اس کی زیادہ اہمیت رہ گئی ہے۔ چیزیں بدل گئی ہیں اور ہم آگے نکل آئے ہیں۔
ان کے لیے اس وقت جس چیز کی زیادہ اہمیت تھی وہ خود کو برتر سمجھنا تھا۔ اب اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

شیئر: