Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئی ہدایت دیں گے نہ مذاکرات میں مداخلت کریں گے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے نظرثانی اپیل تک دائر نہیں کی‘ (فوٹو: اے پی پی)
ملک میں انتخابات ایک دن کرانے کے کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔ کوئی ہدایت دیں گے نہ ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے۔ اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی بلکہ عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔‘
جمعے کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الا احسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ 
سماعت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے کہا کہ قرضوں میں 78 فیصد اور سرکلر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا جبکہ سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔ 
فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ ’لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا لیکن اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا، ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے اور ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہییں۔‘
انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں۔ ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانا پڑتی ہے لیکن مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہوسکتی اس لیے مذاکرات کے لیے مذید وقت درکار ہے۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا ہے لیکن عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں اور سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نکتہ اٹھایا تھا لیکن حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں۔ کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے کا کہا تھا۔‘
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئینی نکات پر دلائل نہیں ہوسکے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے نظرثانی اپیل تک دائر نہیں کی، حکومت قانون کی بات نہیں بلکہ سیاست کرنا چاہتی ہے، پہلے بھی کہا تھا سیاست عدالتی کارروائی میں گُھس چکی ہے لیکن ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے۔ اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے باور کرایا کہ حکومت عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ قانون پر عمل درآمد کے لیے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے، قوم کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔‘
تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تحریک انصاف نے ایک دن الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے اور شرط رکھی کہ اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل کی جائیں، دوسرے شرط تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کرائے جائیں جبکہ تیسری شرط تھی کہ انتخابات میں تاخیر کو آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دی جائے۔
تحریک انصاف نے 14مٸی کو انتخابات کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کر دی۔ بیرسٹر علی ظفر نے موقف دیا کہ ’عدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرواتے ہوئے فیصلہ نمٹا دے۔ حکومت نے 14مٸی انتخابات کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست داٸر نہیں کی اور فاروق ناٸیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، آٸین سے باہر نہیں جایا جا سکتا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ناٸیک نے عدالت کو صرف مشکلات سے آگاہ کیا۔ 
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 14 مئی چند دن بعد ہے لیکن فنڈز جاری نہیں ہوئے، نظریہ ضرورت کی وجہ سے الیکشن مزید تاخیر کا شکار نہیں کرسکتے۔ 

دورانِ سماعت عدالت نے کہا کہ ’حکومت قانون کی بات نہیں بلکہ سیاست کرنا چاہتی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کو خوش آمدید کہا۔ 
خواجہ سعد رفیق نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ’وکیل نہیں ہوں اس لیے عدالت میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے لیکن جو کہوں گا سچ کہوں گا وار سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ 2017 سے عدالت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی اور میں بھی ایک شکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اداروں میں تصادم نہیں چاہتا۔ مذاکرات کے دوران بہت کچھ سُننا پڑا لیکن مذاکرات کے ذریعے ہی سیاسی بحران نکالا جا سکتا ہے۔ آئین 90 دن کے ساتھ شفافیت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ پنجاب پر الزام لگتا ہے کہ یہی حکومت کا فیصلہ کرتا ہے۔ 
وفاقی وزیر نے کہا کہ کئی ماہ سے 63 اے والا نظرثانی کیس زیر التواء ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو رہی ہے اور اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔‘
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں، مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے۔ سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں، دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کے لیے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے کُھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیاع نہیں ہے۔ مذاکرات جاری رکھنے چاہییں اور یہ میری تجویز ہے۔ عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتی لیکن ملک کی قیمت پر الیکشن نہیں چاہتے۔ مستقل کوئی بھی عہدے پر نہیں رہنا چاہیے آپ ہوں یا ہم۔ نہ پہلے والا مارشل لاء ہے نہ گزشتہ دور کا نقاب پوش مارشل لاء ہے، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔‘
چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’خواجہ صاحب! آپ کی باتوں میں ہی وزن لگ رہا ہے۔ آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے لیکن ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں۔‘
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سوموٹو کے نتیجے میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آئی اور عدالت خود بھی اس نکتے پر غور کر سکتی ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’مذاکرات جاری رہیں تو اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔ عدالت ہدایت نہ دے ہم خود مل بیٹھیں گے‘ (فوٹو: پی ٹی آئی)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کے علاوہ کوئی سنجیدہ نکتہ نہیں اُٹھانا چاہتا ہے۔ ابھی تک چار تین کی ہی بات چل رہی ہے۔ دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہیے، امتحان سے نکل سکتے ہیں اگر آپ کا اتفاق رائے ہو جائے تو، اللہ نے امتحان مقرر کیا ہے۔ تو ہمارے ساتھ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’بات دو اور ہفتوں کی رہ گئی ہے جبکہ باتوں کے لیے بھی زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ ایسا نہ ہو ہم باتیں کرتے رہ جائیں لیکن مذاکرات جاری رہیں تو اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔ عدالت ہدایت نہ دے ہم خود مل بیٹھیں گے۔‘ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کوئی ہدایت دیں گے نہ ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے، اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے، کیا نظرثانی اپیل دائر کرنے کی مدت ختم ہوچکی ہے؟ نظرثانی اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ ‘
وکیل شاہ خاور نے عدالت میں موقف دیا کہ الیکشن کمیشن نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کیا الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل قابل سماعت ہے؟الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ صرف فنڈز اور سیکیورٹی چاہیے۔‘
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے عدالت میں موقف دیا کہ ’حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ پرانا مؤقف دہرایا ہے۔ ہم نے اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں۔ حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آ رہی ہیں۔ ہماری متفرق درخواست پر تمام کمیٹی ارکان کے دستخط ہیں جبکہ حکومتی جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومتی درخواست صبح آئی ابھی نمبر بھی نہیں لگا لیکن اسے سن لیا۔ پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا دو یا تین دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟ ہم نے آپ کا مؤقف پڑھ لیا ہے۔ دوسرے کیس میں کارروائی ہوسکتی ہے۔ اگر دلچسپی ہو تو دوبارہ مذاکرات پر آجائیں۔ آج کی عدالتی سماعت مکمل ہوگئی ہے، عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔ ‘
فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ اس بات پر کیس نمٹا دیں کہ فریقین ایک تاریخ پر الیکشن کرانے پر متفق ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔‘

شیئر: