Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالت کو ایک ہی دن انتخابات کے لیے مذاکراتی عمل پر کوئی اعتراض نہیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد قانونی اور آئینی سوال ہے۔
سپریم کورٹ نے ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی۔
ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانےکی درخواستوں پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے سیاسی جماعتوں کو چار بجے تک مذاکرات کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا تھا۔
وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت تو نہیں ہوئی لیکن اٹارنی جنرل اورپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے چیمبر میں بینچ کو سیاسی جماعتوں سے رابطوں کے بارے میں بریفنگ دی جس کے بعد سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ سے جاری تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی اور فاروق ایچ نائیک نے چیمبر میں آئے اور بینچ کو بتایا کہ کابینہ کے سینیئر ممبرز کی پی ٹی آئی کی سینیر قیادت سے رابطہ ہوا ہے۔
’موقف اختیار کیا گیا کہ عید کے باعث متعد رہنما اور پارٹی سربراہان اپنے آبائی علاقوں کو جا رہے ہیں۔ عید الفطر کے باعث مذاکراتی عمل کو موخر کرنے کا بتایا گیا۔‘
عدالت نے حکم دیا کہ ملاقات میں ہونے والی پیش رفت سے سپریم کورٹ کو 27 اپریل کو اگاہ کیا جائے۔
حکمنامے کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو عدالت نے گذشتہ روز کہا تھا کہ پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کریں۔
’فاروق ایچ نائیک نے بتایا مذاکراتی عمل کے لیے پی ڈی ایم اتحادیوں کے درمیان مشاورتی عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ فاروق ایچ نائیک کے مطابق طے ہو چکا ہے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اپوزیشن رہنماؤں سے ملکر ایک ہی روز انتخابات کے انعقاد کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی سعی کریں گے۔ ن لیگ کی نمائندگی کرتے ہوئے سعد رفیق فاروق نائیک کے بیان کی توثیق کی۔‘
عدالت حکمنامے میں بتایا گیا ہے کہ ن لیگ کیجانب سے بھی عدالت کو ایک ہی روز انتخابات کے لیے مزاکرات کرنے کا یقین دلایا گیا۔
’پی ٹی آئی کیجانب سے شاہ محمود قریشی پیش ہوئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ان کی جماعت کو اس مذاکراتی عمل پر شکوک وشبہات ہیں۔ لیکن آئین پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کے لیے مذاکرات پر تیار ہیں۔‘

الیکشن کی تاریخ پر سیاسی اتفاق رائے کے لیے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سیاسی قائدین کو  آج طلب کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے عدالت کے سامنے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کی رائے پر نہ صرف مثبت ردعمل دیا بلکہ اتفاق بھی کیا۔ سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں پیش ہو کر اس عزم کو دہرایا کہ آئین سپریم ہے۔‘
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اگر سیاستدانوں کے مابین تمام اختلافات پر مذاکراتی عمل شروع ہوا تو اس پر کافی وقت خرچ ہونے کا امکان ہے۔ سیاستدانوں کے آپس کے تمام اختلافات پر مذاکرات کا اصل فورم سیاسی ادارے ہیں۔ تاہم عدالت کو ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کے لیے مذاکراتی عمل پر کوئی اعتراض نہیں۔
’ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد قانونی اور آئینی سوال ہے۔ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ برقرار ہے۔‘
قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنا 14 مئی کا فیصلہ قائم رکھنا ہے۔ سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ قائم ہے اور نہیں بدلے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست نہیں آئی۔  وزارت دفاع کی درخواست مذاق لگی۔ ہم آج بھی سب کو سننےکے لیے تیار ہیں کل بھی عید نہ ہوئی تو سن لیں گے۔ سپریم کورٹ کا 14 مئی کا انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔
الیکشن کی تاریخ پر سیاسی اتفاق رائے کے لیے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سیاسی قائدین کو  آج طلب کیا تھا۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق، پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ، بی این پی کی طرف سے سردار ایاز صادق، ایم کیو ایم کی جانب سے صابر قائم خانی، مسلم لیگ ق کی طرف سے طارق بشیر چیمہ اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید عدالت مین پیش ہوئے۔
عدالت نے تمام سیاسی رہنماوں کا نکتہ نظر سنا اور کہا کہ عید کے بعد کے بجائے آج ہی مذاکرات کیے جائیں۔ عدالت کو دو بجے تک پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔ جس کے بعد عدالت نے سماعت چار بجے تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس نے کیس کی سماعت چار بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود سیاسی رہنما اپنی قیادت سے مشورہ کر کے پیش رفت سے آگاہ کریں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے، توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی۔ کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالتی فیصلے کو اگنور نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت چار بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود سیاسی رہنما اپنی قیادت سے مشورہ کر کے پیش رفت سے آگاہ کریں۔

شیئر: