Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذاکرات کا آخری راؤنڈ کامیاب ہو گا یا معاملہ پھر سپریم کورٹ جائے گا؟

مذاکرات کے اب تک دو دور مکمل ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
آج حکومتی اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات کا حتمی راؤنڈ ہو رہا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے ان مذاکرات میں حکومت کی جانب سے اسحاق ڈار، سید یوسف رضا گیلانی، سید نوید قمر اور کشور زہرہ جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر شریک ہو رہے ہیں۔
اگرچہ مذاکرات کے نتیجے کے بارے میں اس حتمی راؤنڈ کے اختتام سے پہلے یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس مرحلے کے آغاز سے پہلے دونوں جماعتوں کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات اس کے انجام کی طرف کچھ اشارے کر رہے ہیں۔
پیر کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اُن کی مذاکراتی ٹیم آج ہونے والی بات چیت میں واضح موقف اختیار کرے گی کہ اگر 14 مئی سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کی جاتی ہیں تو وہ بات کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے سوا کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے ان کی بات نہ مانی تو وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن کے لیے سپریم کورٹ جائیں گے۔
عمران خان نے اپنے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ’تیاری کریں اگلے ہفتے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، ہم آئین اور اپنے چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہوں گے، اگر انہوں نے آئین توڑا تو تحریک انصاف سڑکوں پر نکلے گی، یہ الیکشن سے بھاگیں گے تو ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نواز کے دو سینیئر وزرا نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ان کی جماعت اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔
وزیر دفاع اور نواز شریف کے قریبی ساتھی خواجہ محمد آصف نے پیر کی شب جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان سے بات چیت بے سود ہے۔‘
قبل ازیں انہوں نے سیالکوٹ میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عمران خان جلد جلسے جلوس شروع کریں تا کہ حکومت کی مذاکرات سے جان چھوٹ جائے۔‘
ایک اور اہم وزیر اور مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما خرم دستگیر خان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’عمران خان جو مرضی کہتے رہیں بجٹ ہم ہی پیش کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جوسیاسی قیمت ادا کرنی تھی کر دی، اب بہتری کا وقت ہے، کسی دباؤ کے تحت حکومتیں ختم نہیں کی جا سکتیں۔‘

تحریک انصا ف کی جانب سے شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر مذاکرات کار ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

تو کیا آج ہونے والا مذاکرات کا آخری راؤنڈ ناکامی پر ختم ہو گا اور یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں جائے گا؟
یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب دونوں متحارب سیاسی فریقین کے اقدامات میں پنہاں ہے۔
جب پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے حکم پر مذاکرات کے لیے حامی بھری تو یہ اس کے سربراہ عمران خان کے پے درپے بیانات کہ وہ چوروں ڈاکوؤں کے ساتھ بات چیت کے لیے نہیں بیٹھیں گے، سے کنارہ کشی تھی۔
اس کے بعد مذاکرات کے لیے بنائی گئی پی ٹی آئی کی ٹیم کے اراکین کے مثبت بیانات بھی ایک مثال تھے کیونکہ اس جماعت کی طرف سے ماضی میں کبھی اتنا مصالحانہ رویہ نہیں رکھا گیا۔
پھر مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ کے بعد، پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کے گھر پر پولیس چھاپے کے بعد جس طرح حکومتی کمیٹی کے سینیئر رکن اسحاق ڈار نے تحریک انصاف سے رابطہ کیا وہ بھی ایک خوش آئند امر تھا جس سے لگ رہا تھا کہ حکومت مذاکرات کو کامیاب بنانے کی خواہاں ہے۔
لیکن اس کے فوراً بعد خواجہ آصف اور دوسرے نون لیگی رہنماؤں کے منفی بیانات اور عمران خان کا دو ٹوک رویہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ شاید یہ عمل کامیاب نہ ہو سکے۔
اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاکراتی کمیٹی کی ایک رکن کشور زہرہ نے ہفتے کے شب اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ’مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والے عناصر دونوں اطراف موجود ہیں۔‘
کشور زہرہ نے بھی مذاکرات کے انجام کے متعلق غیر یقینی کا اظہار کیا تھا۔

حکومتی کمیٹی کی سربراہی اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

کچھ ایسے ہی تاثرات تجزیہ کار اجمل جامی کے بھی ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کسی بھی قسم کے سیاسی مذاکرات کے لیے آغاز اعتماد سازی کے اقدامات سے ہوتا ہے۔ ان مزاکرات سے پہلے اور دوران جو کچھ ہوا ہے وہ اعتماد سازی نہیں بلکہ ناکامی کا پیغام ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حکومت کی طرف سے جارحانہ اقدامات پر پی ٹی آئی اشتعال انگیزی کے بجائے مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ عوام کو بتا سکیں کہ انہوں نے مسئلے کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور مذاکرات سے وہ نہیں بلکہ حکومت بھاگی۔‘
اجمل جامی کا کہنا تھا کہ تنازع 70 فیصد تک حل ہو چکا ہے کیونکہ دونوں فریقین انتخابات کے ایک روز انعقاد پر متفق ہو چکے ہیں اور اب مسئلہ صرف بجٹ سے پہلے یا بعد میں انعقاد کروانے کا ہے جس پر دونوں اطراف متفق ہوتی نظر نہیں آتیں۔
’اس مسئلے پر مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں اور اگر یہ ناکام ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔‘  

سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا‘

اجمل جامی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی مذاکرات کی کامیابی کا انحصار دو سوالوں کے جواب پر ہوتا ہے۔
ایک یہ کہ اعتماد سازی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے اور دوسرا کہ ریاستی ادارے کہاں کھڑے ہیں۔ حالیہ مذاکرات کے تناظر میں دونوں سوالوں کے جواب نفی میں ہیں۔‘

شیئر: