Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکیہ میں انتخابات: کیا اردوغان کا 21 سالہ دور حکمرانی خطرے میں ہے؟

رجب طیب اردوغان کے مقابلے میں متحدہ اپوزیشن کے امیدوار کمال قلیچ‌ داراوغلو ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان ایک طاقتور سیکولر حریف کے خلاف اپنی سیاسی زندگی کی لڑائی سے قبل استنبول کی تاریخی آیا صوفیہ مسجد میں ہونے والی دعائیہ تقریب میں شرکت کریں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 69 سالہ ترک صدر اس رسم کی تقلید کریں گے جو عثمانی سلطان اپنے لوگوں کو جنگ پر بھیجنے سے قبل انجام دیتے تھے۔ اردوغان اتوار کو ہونے والے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے لیے تیار ہیں۔
ان کو اس سے قبل اتنی توانا اور متحد اپوزیشن کا سامنا نہیں رہا جو اس وقت ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کمال قلیچ‌ داراوغلو کی قیادت میں چھ جماعتوں کے اتحاد کی صورت میں ان کے مدمقابل ہے۔
رجب طیب اردوغان 21 برسوں سے اپنے مخالفوں کو تقسیم کر کے ایک کے بعد ایک الیکشن جیتتے آئے ہیں، تاہم ان کی اسلامی بنیاد رکھنے والی جماعت کو ان کے دوسرے دور حکمرانی کے عشرے کے دوران ملک کی بدحال معیشت اور شہریوں آزادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے غیظ و غضب کا سامنا ہے۔
اپوزیشن کی چھ جماعتوں نے اپنے سیاسی اور ثقافتی اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے ہاتھ ملا لیے کیونکہ ان کا واحد مقصد اردوغان کو اقتدار سے روانہ کرنا ہے۔

رجب طیب اردوغان 21 برسوں سے اپنے مخالفوں کو تقسیم کر کے ایک کے بعد ایک الیکشن جیتتے آئے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس اتحاد کو ملک میں کردوں کی حمایت کرنے والی جماعت کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یہ جماعت 10 فیصد ووٹ بینک رکھتی ہے۔
اعدادوشمار ترک صدر کے حق میں نہیں ہیں اور زیادہ تر پولز میں وہ اپنے سیکولر حریف سے چند پوائنٹس پیچھے ہیں۔
کمال قلیچ‌ داراوغلو اب شدت سے 50 فیصد کی حد کو توڑنے اور 28 مئی کے رن آف سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اردوغان کو دوبارہ منظم ہونے اور بحث کو دوبارہ ترتیب دینے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
انہوں نے انقرہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ ملک میں جمہوریت لانے کے لیے تیار ہیں؟ ملک میں امن لانے کے لیے تیار ہیں؟ میں وعدہ کرتا ہوں میں بھی تیار ہوں۔‘

اعدادوشمار ترک صدر کے حق میں نہیں ہیں اور زیادہ تر پولز میں وہ اپنے سیکولر حریف سے چند پوائنٹس پیچھے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

دوسری جانب ترک صدر کو جمعے کی رات ٹی وی پر اس وقت غیرمتوقع صورت حال سے دوچار ہونا پڑا، جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر وہ ہار گئے تو کیا کریں گے؟
انہوں نے جواب میں کہا کہ ’یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔‘
’ہم اقتدار میں جمہوری طریقوں اور عوام کی مرضی سے آئے ہیں۔ اگر عوام اپنا ذہن بدل لیتے ہیں تو ہم وہی کریں گے جو جمہوریت کا تقاضا ہے۔‘

شیئر: