Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ: کون کون گیا؟ کیا کہہ کر گیا؟کون ساتھ کھڑا ہے؟

اسد عمر نے پارٹی عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیرینہ رہنماؤں کی پارٹی یا سیاست سے علیحدگیوں کا سلسلہ ابھی رُکا نہیں ہے لیکن اب تک جن افراد نے پارٹی چھوڑنے کے لیے پریس کانفرنسیں کی ہیں ان کے موقف میں  کچھ نہ کچھ فرق دکھائی دیتا ہے۔ 
نو مئی کو جو کچھ ہوا اس کی مذمت اور فوج کی اہمیت اور ضرورت سے متعلق باتیں تقریباً سبھی رہنماؤں نے کی ہیں۔ 
ایک اندازے کے مطابق پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماؤں کی تعداد 30 مئی تک 100 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ 
کن رہنماؤں نے سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیا؟ 
تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے صرف پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ سیاست ہی چھوڑ دینے کا اعلان کیا۔
ان میں سے کچھ افراد نے ’موجود حالات میں سیاست سے وقفہ لینے‘ کا اعلان کیا۔ 
پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری، فواد چوہدری، عامر محمود کیانی، عمران اسماعیل اور علی زیدی کا شمار تحریک انصاف کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو پارٹی اور سابق حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان سب نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا ہے۔ 
اس کے علاوہ سابق ایم این اے راجہ خرم نواز، ملیکہ بخاری، سابق ایم پی اے ڈاکٹر نادیہ عزیزم، جمشید چیمہ اور ان کی اہلیہ مسرت چیمہ، تحریک انصاف کی سینئر نائب صدر ویمن ونگ پنجاب کنیز فاطمہ، گلوکار ابرارالحق نے بھی پارٹی کے ساتھ ساتھ سیاست بھی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ 

نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے اہم لیڈرز نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

وہ رہنما جنہوں نے سیاست نہیں صرف پارٹی چھوڑی 
پریس کانفرنس کرنے والے کچھ رہنما ایسے بھی تھے جنہوں نے صرف پارٹی عہدوں اور عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کیا لیکن سیاست جاری رکھنے، چھوڑنے یا کسی اور پارٹی میں شمولیت کے بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا۔ 
اسد عمر تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل تھے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل سے پریس کلب اسلام آباد پہنچ کر پریس کانفرس کی اور لگ بھگ وہی باتیں دہرائیں جو دیگر رہنما ان سے قبل کر کے گئے تھے۔ 
لیکن اسد عمر نے ایک سوال کے جواب میں واضح طور پر کہا تھا کہ میں نے صرف پارٹی عہدے چھوڑنے کی بات کی ہے جس سے تأثر مل رہا تھا کہ وہ ابھی تک اپنی جماعت ہی کے ساتھ ہیں۔ 
فیاض الحسن چوہان جو پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پنجاب کے وزیراطلاعات بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے صرف پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ فردوس عاشق اعوان نے 26 مئی کی پریس کانفرنس میں واضح لفظوں میں سیاسی سفر جاری رکھنے کی بات کی تھی۔ 
اسی طرح سابق رکن پنجاب اسمبلی ملک خرم علی خان نے بھی پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان تو کیا لیکن یہ بھی کہا کہ وہ سیاست جاری رکھیں گے۔ 
فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی شیخ خرم نواز نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا لیکن مستقبل کی سیاست کا فیصلہ دوستوں کی مشاورت سے کرنے کا اعلان کیا۔ 
اس کے علاوہ سینیٹر سیف اللہ نیازی، مراد راس، خیبرپختونخواہ سے سابق صوبائی مشیر ملک قاسم خان، احسن انصر بھٹی، کراچی سے عباس جعفری نے بھی صرف پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ 
سابق وفاقی وزیر خسرو بختار بھی پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے تمام عہدوں سے استعفیٰ دیا۔

پی ٹی آئی کے احتجاج میں سرکاری املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

پی ٹی آئی رہنما جنہوں نے عمران خان پر تنقید کی 
ایک اور اہم بات یہ سامنے آئی کہ اب تک پی ٹی آئی کے جن صف اول کے رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے، ان میں سے بہت کم نے عمران خان پر تنقید کی ہے۔ 
فیاض الحسن چوہان اور فردوس عاشق اعوان ان نمایاں چہروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی پریس کانفرنسوں میں نسبتاً کھلے الفاظ میں عمران خان کے رویے اور ان کے اردگرد موجود ’مشیروں‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
پی ٹی آئی کے دیرینہ رہنما اور سابق وفاقی وزیر عامر محمود کیانی، اسد عمر، عمران اسماعیل، علی زیدی، شیریں مزاری، سیف اللہ نیازی، ملیکہ بخاری، محمود باقی مولوی ایسے رہنما ہیں جن میں سے بیشتر سے پریس کانفرنسوں میں عمران خان سے متعلق سوال پوچھا گیا لیکن انہوں نے عمران خان کی ذات پر کوئی منفی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ 
پی ٹی آئی کے نمایاں رہنماؤں میں شمار ہونے والے فواد چوہدری نے بھی عمران خان کے بارے میں ابھی تک کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا۔ 
اب تک کتنے الیکٹیبلز نے پی ٹی آئی چھوڑی ہے؟ 
اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کرنے والوں میں کتنے ایسے افراد ہیں جن کا شمار الیکٹیبلز میں ہوتا ہے۔ 
پاکستانی سیاست کے تناظر میں الیکٹیبلز ان سیاسی رہنماؤں کو کہا جاتا ہے جن کی جیت کسی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ کی مرہونِ منت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں برادری، سماجی رسوخ، مالی حیثیت یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر اکثر جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ 
یہ الیکٹیبلز عموماً ہر الیکشن  سے قبل سیاسی لہر کو بھانپتے ہوئے کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اعلان کرتے ہیں یا پھر وہ آزاد حیثیت میں الیکشن جیتنے کے بعد اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں جو اقتدار حاصل کرتی ہے۔ 
سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل اور بعد میں جن الیکٹیبلز نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، ان میں سے اکثر کو پی ٹی آئی میں لانے میں جہانگیر خان ترین نے کردار ادا کیا تھا۔ 

شاہ محمود سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو گرفتا کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اُن دنوں جہانگیر ترین کے اس ذاتی جہاز کا سیاسی مباحثوں اور سوشل میڈیا پر کافی تذکرہ ہوتا رہا جس میں وہ الیکٹیبلز اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن جیتنے والوں کو عمران خان سے ملاقات اور پارٹی میں شمولیت کے لیے لایا کرتے تھے۔ 
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر دباؤ تو ہے لیکن ابھی تک سوائے خسرو بختیار کے کسی بھی ایسے شخص نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا جو الیکٹیبلز میں شمار ہوتا ہو۔ ہاں اس سے قبل جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گئی تھی تو اسی وقت کچھ الیکٹیبلز چلے گئے تھے۔ 
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئندہ دنوں میں الیکٹیبلز کے حوالے سے جہانگیر خان ترین کا کردار اہم ہو گا۔ وہ ان دنوں ایک بار پھر متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما جنہوں نے پارٹی سے سیاسی تعلق نہیں توڑا 
تحریک انصاف کے کچھ نمایاں رہنما ایسے بھی ہیں جو ابھی تک پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان رہنماؤں میں سے کچھ گرفتار ہیں جبکہ دیگر روپوش ہیں۔ 
شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین ہیں۔ وہ اڈیالہ جیل میں قید ہیں لیکن ابھی تک ان کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔  
اس کے علاوہ ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چوہدری، رکن پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید وہ رہنما ہیں جنہوں نے صاف الفاظ میں یہ کہا ہے کہ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو نہیں چھوڑ رہے۔ 
ایک اور رہنما اور رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی بھی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں لیکن ان کی جانب سے بھی پارٹی چھوڑنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔  
کراچی سے تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے بھی واضح الفاظ میں عمران خان کی تعریف کی اور انہیں دستیاب سیاسی قیادت میں سب سے بہترین قرار دیا۔ 
پرویز خٹک، اسد قیصر، سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان، ایم این اے علی محمد خان، سینیٹر شبلی فراز، فردوس شمیم نقوی، عثمان ڈار، حلیم عادل شیخ، مراد سعید، زرتاج گل، سینیٹر فیصل جاوید، تیمور جھگڑا، علی نواز اعوان، عمر ایوب خان، صدر تحریک انصاف جنوبی پنجاب عون عباس بپی، فرخ حبیب اور حماد اظہر بھی آخری اطلاعات تک پارٹی کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ 

الیکٹیبلز کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر جہانگیر ترین نے اہم کردار ادا کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

دوسری جانب عمران خان کے اتحادی اور سابق وزیرداخلہ شیخ رشید احمد بھی ٹوئٹر پر سرگرم ہیں۔ انہوں نے دو دن قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ’جب تک عمران خان یہ لڑائی لڑ رہا ہے، اس کے ساتھ کھڑا ہوں۔‘ 
سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے ممکنہ طور پر الیکٹیبلز کی جانب سے پی ٹی آئی چھوڑنے کے سوال پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسے حلقوں میں دو تین خاندان آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی الیکیٹیبل پی ٹی آئی چھوڑے گا تو ٹکٹ کی لائن میں موجود دوسرا شخص سامنے آ جائے گا۔‘ 
پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے ابھی تک پارٹی کے ساتھ دباؤ کے باوجود کھڑے رہنے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں جو اصول پر مبنی سیاست کرتا ہے اور اس کا کردار شفاف ہوتا ہے، اس کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ابھی تک تحریک انصاف کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘ 
’عمران اپنا کام کر چکے ہیں‘ 
پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اعلانات کا پاکستان کے ووٹر پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال کے جواب میں رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’میرے خیال میں عمران اپنا کام کر چکے ہیں۔ اب وہ اقتدار میں آئیں یا نہ آئیں نوجوانوں میں شعور پیدا ہو گیا ہے۔‘ 
سیاسی تجزیہ کار اور مصنف ڈاکٹر عاصم سجاد اختر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ان حالات کے باوجود کہیں نہ کہیں لگتا ہے مائنس ون کر کے اسٹیبلشمنٹ کے لیے کسی نہ کسی شکل میں قابل قبول پی ٹی آئی کو برقرار رکھا جائے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں اس وقت جہانگیر ترین وغیرہ سرگرم ہو گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کسی ایک گھوڑے پر کبھی بھی اپنے تمام کارڈز نہیں لگاتی۔‘ 
’پی ٹی آئی کے نیچے سے قالین کھینچا جا رہا ہے‘ 
پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر ’دباؤ‘ اور ان کے پارٹی سے وابستگی ختم کرنے کے اعلانات کے اثرات کے حوالے سے عاصم سجاد کا کہنا تھا کہ ’پہلے پی ٹی آئی کو طاقتور قوتوں نے سرپرستی فراہم کی اور اب اس کے نیچے سے قالین کھینچا جا رہا ہے۔ اس تمام عمل کے نوجوانوں پر اثرات تو پڑیں گے۔‘ 

عمران خان کے مطابق پی ٹی آئی کو توڑ کر کنگز پارٹی بنائی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

’پی ٹی آئی کے حامی نوجوانوں میں سیاست سے بیگانگی کا رویہ کا جنم لے سکتا ہے لیکن تھوڑا سا امکان یہ بھی ہے کہ شاید ان میں سے کچھ نوجوان اب ایک حقیقی سیاسی کارکن بننے کی جانب بڑھیں۔ کیا ہو گا، یہ اب وقت ہی بتائےگا۔‘ 
بہت سے رہنما قید اور دباؤ کے باوجود ابھی تک پی ٹی آئی سے الگ ہونے کو تیار نہیں؟ اس پر عاصم سجاد کہنا تھا کہ ’دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو اس میں شخصیت کا سیاسی طور پر مضبوط ہونا بھی اہم عنصر ہوتا ہے جیسا کہ یاسمین راشد اور کچھ رہنماؤں کا ابھی تک کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔‘ 
’اس کے علاوہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ابھی تک شاید کسی امید کے تحت پارٹی سے علیحدگی کا اعلان نہیں کر رہے۔‘ 

شیئر: