Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ناروے سے پاکستان 22 دن میں، ’زندگی کو جینا ہے تو موٹر بائیک پر سفر ضروری ہے‘

خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد نارویجین شہری ضیا الدین موٹر بائیک پر 22 روز کا سفر طے کر کے 4 جون کو اپنے گاؤں لنڈی کوتل پہنچے، جہاں اہل علاقہ سمیت ضلعی انتظامیہ کے افسران نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کی۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بائیکر ضیا الدین کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ ایک دہائی سے ناروے کے شہر اوسلو میں رہائش پذیر ہیں۔ وطن سے دور انہیں گھر کی یاد ستا رہی تھی اس لیے ملک واپس آنے کا خیال آیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں پورے یورپ میں موٹر بائیک پر سفر کر چکا ہوں اس بار سوچا کہ پاکستان بھی بائیک پر جاؤں اسی ارادے کے ساتھ 2 مئی کو ناروے سے نکلا۔‘
ضیاء الدین نے بتایا کہ وہ یورپ کے 16 ممالک سے ہوتے ہوئے ترکی اور پھر وہاں سے ایران کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سفر کے دوران میں مختلف مقامات میں قیام کرتا تھا تاکہ نئی جگہوں کو دیکھنے کا موقع ملے۔ اس سفر میں پانچ ہزار یورو خرچ ہوئے مگر میں پیسوں کو نہیں دیکھتا کیونکہ یہ میرے خوش رہنے کی وجہ ہے۔ میں اسی طریقے سے جینا چاہتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں صحت مند رہنے کے لیے سفر کرتا ہوں۔ اگر زندگی کو جینا ہے تو موٹر بائیک پر سفر ضروری ہے۔‘
ضیا الدین کے مطابق ’کورونا میں جب سفری پابندی لگی تو میں نے بائیک پر سفر کرنا شروع کیا۔ موٹرسائیکل پر سفر کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی بارڈر کی قید نہیں، آپ ہر جگہ گھوم پھر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’روزانہ کی بنیاد پر 500 کلومیٹر طے کرتا تھا۔ میرے پاس بی ایم ڈبلیو 2021 ماڈل بائیک ہے جو سفر کے لیے بہت آرام دہ ہے۔‘
ضیاء الدین کا کہنا تھا کہ ’میرا تعلق قبائلی ضلع خیبر سے ہے جو دہشت گردی سے بہت متاثر ہوا تھا۔ میں یہ سفر بائیک پر کر کے ایک تو امن کا پیغام دینا تھا دوسرا سیاحت اور کلچر کو پروموٹ کرنا میرا مقصد تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ناروے جاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ممالک کی سیر کروں گا۔‘

شیئر: