Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باپ پاکستانی، ماں انڈونیشی، بچے کہاں جائیں؟

 
ارسلان ہاشمی
 
 
سفیر پاکستان سے گزارش نہیں فریاد ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسے منقسم خاندانوں کو پاکستان بھجوانے کیلئے اقدامات کریں ، بے آسرا اور بے یار و مدد گار لوگوں کے بچوں کے سفری دستاویزات اور خرچ کر بندوبست کریں
 
 
 
  مملکت سعودی عرب کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اس کیلئے قوانین مقرر ہیں جن پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں ۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کوپناہ دینے والے انہیں روزگار فراہم کرنے اور مختلف مقامات پر انہیں لے کرجانے والے بھی قانون شکنی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ ماضی بعید کے مقابلے میں کچھ عرصہ سے غیر قانونی قیام کرنے والوں کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے اس کے باوجود  عمرہ اور حج پر آنے والے اب بھی سلپ ہوجاتے ہیں ۔ چند برس قبل مملکت میں غیر قانونی تارکین کو مہلت دی گئی کہ وہ یا تو ملک سے چلے جائیں یا اپنا اسٹیٹس درست کروا لیں ۔ 2013 میں جو مہلت دی گئی تھی وہ ابتدائی طور پر6 ماہ کی تھی مگر غیر قانونی تارکین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس میں مزید اضافہ کیا جاتا رہا ۔
امسال بھی خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد مملکت شہزادہ محمد بن نایف بن عبدالعزیز نے مملکت میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن اورقانون محنت کی خلاف ورزی کے مرتکبین  کے لئے عام معافی کا اعلان کیا جس کا نفاذ  29  مارچ 2017 سے کیا گیا جو 90 دن یعنی 3 ماہ جاری رہے گی ۔ اس عام معافی کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ ان غیر ملکیوں کو فائدہ ہو گاجو عمرہ ، حج ، وزٹ یا ٹرانزٹ ویزے پر آکر مملکت میں غیر قانونی طور پر مقیم ہو گئے ہیں کیونکہ قانون اقامت کے مطابق ایسے غیر قانونی افراد پر مالی جرمانے کے علاوہ انہیں آئندہ 3 برس کیلئے مملکت میں بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے ۔ حالیہ دی گئی مہلت میں ایسے تارکین  جنکے پاس مملکت آنے کا دستاویز ی ثبوت ہو انکے لئے آسانی یہ ہے کہ وہ ٹکٹ خرید کر براہ راست ائیر پورٹ چلے جائیں جہاں انکا فائنل ایگزٹ ویزا لگا کر انہیں روانہ کر دیا جائیگا بعدازاں وہ جب چاہیں قانونی ویزے پر مملکت آسکتے ہیں ۔ 
ایوان شاہی سے ملنے والی عام معافی سے جہاں لاکھوں افراد مستفیض ہونگے وہاں ان ہزاروں خاندانوں میں بھی امید کی شمعیں روشن ہو گئی ہیں جن کے شریک حیات مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ قارئین کرام ہمارا آج کا موضوع منفرد بھی ہے اور انتہائی حساس بھی اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان ہزارو ںخاندانوں کی امید بر آتی ہے یا  یہ خاندان ہمیشہ کیلئے بچھڑ جاتے ہیں ۔ اس موضوع کا نازک پہلو یہ ہے کہ بچوں کی بہتر نگہداشت کیلئے والدین کا ساتھ ہونا انتہائی اہم ہے مگر یہاں صورتحال اس قسم کی ہے کہ سربراہ خانہ غیر قانونی طور پر مقیم ہے اگر وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وطن جاتا ہے تو بچے اور اہلیہ کہاں جائیں ؟ اگر خاتون جس کا قیام بھی غیر قانونی ہے اور وہ بھی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ملک چلی جاتی ہے تو سوال ایک بار پھر اٹھتا ہے کہ بچے کہاں جائیں ؟ اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کیلئے دونوں ممالک کے سفارتکاروں سے بھی رابطہ کیا گیا تاکہ انکا موقف اور اس انسانی مسئلے کا مناسب حل تلاش کیا جاسکے جو ان بچوں کے مستقبل کے لئے بہتر ہو سکے ۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حالات کی چکی میں پس رہا ہوں ، کام مکمل طور پرختم ہوچکا ، محمد اکرام

طویل عرصے سے بے روزگار ہیں ، عرصے سے بچوں نے گوشت کی شکل تک نہیں دیکھی
دیکھنا ہے کہ مختلف ممالک کی خواتین سے شادیاں کرنیوالوں کی امید برآتی ہے یا یہ خاندان ہمیشہ کیلئے بچھڑ جاتے ہیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 جدہ کوحرمین کا دروزاہ کہا جاتا ہے ایک جانب مکہ مکرمہ ہے تو دوسری جانب شہر نبی   ۔ دنیا بھر سے عمرہ او رحج کیلئے آنے والو ںکی پہلی منزل یہی ہوتی ہے ۔ جدہ میں سب سے زیادہ لیموزین کمپنیاں ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق  شہر میں 6 سو سے زائد لیموزین کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کے 70 فیصد ڈرائیور پاکستانی ہیں جو برسوں سے یہاں آباد ہیں ۔ ان لیموزین ڈرائیوروں کی اکثریت نے یہاں غیر ملک کی خواتین سے شادیاں کی ہیں جن میں سے 80 فیصد انڈونیشیا کی ہیں جبکہ باقی 20 فیصد خواتین کا تعلق فلیپائن سے ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق برسوں سے  آباد ان خاندانوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے جنہوں نے غیر ملکی خواتین سے شادیاں کی ہیں اور ہر خاندان میں بچوں کی تعداد کم از کم 3 ہے ۔ یہ خواتین جن میں سے اکثر خادمہ  یا بعض عمرہ ویزے پر مملکت آئی تھیں ۔ معلوم نہیں کہ اس کہاوت میں کتنی صداقت ہے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں۔ اسی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے ان ٹیکسی ڈرائیوروں نے غیر ملکی خواتین سے شادیاں کیں اور برسوں سے آباد ہیں بلکہ اب انکی دوسری نسل بھی جواں ہو کر تیسری نسل کو تیار کر رہی ہے ۔ ان کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کا نہ تو کوئی مستقبل ہے اور نہ ہی انہیں مناسب تعلیم دی جارہی جس سے وہ کسی بھی ملک کے مفید شہری بن سکیں ۔ ٭آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے لیموزین ڈرائیورفضل عباس 25 برس قبل مملکت آیا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہاں لیموزین کمپنیاں نئی نئی قائم ہو رہی تھیں ڈرائیونگ جاننے والوں کو روزگار باسانی مل جایا کرتا تھا ۔ فضل نے بتایا کہ جب وہ مملکت آیا تو ابتداء میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر بعد ازاں اسے ایک لیموزین کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا۔ یہاں آئے ہوئے 4 برس ہو چکے تھے۔ علاقو ں سے بخوبی واقف ہو چکا تھا ۔ گرمیوں کے دن تھے ائیر کنڈیشن گاڑی میں سواریوں کی تلاش میں تھا کہ ایک نسبتا سنسان سڑک پر مجھے ایک خاتون دکھائی دی۔ اس نے گاڑی روکی اور ایک علاقے میں جانے کا کہا ۔ کرایہ طے کر کے میں نے گاڑی چلا دی۔ ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ عقبی  شیشے میں دیکھا تو خاتون رو رہی تھی مجھے ایسا لگا کہ قدرت مجھ سے کوئی کام لینا چاہتی ہے میں نے خاتون سے عربی میں پوچھا " آپ کو کیا پریشانی ہے ؟ کیا میں کوئی مدد کر سکتا ہوں " ؟  تھوڑی دیر تو خاتون کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا تو میں سمجھا کہ شاید وہ کچھ بتانا نہیں چاہ رہی۔ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا ۔ چند لمحات ہی گزرے تھے کہ اچانک عقبی سیٹ سے سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے پیچھے دیکھا تو وہ عورت زار وقطار رو رہی تھی۔ اب میں نے گاڑی ایک دکان کے سامنے روک دی اور اتر کر پانی کی بوتل لایا اور اسے دی۔ میں نے ہمت کرکے دوبارہ پوچھا کیا آپ کو کوئی پریشانی ہے ؟  اگر میں کسی کام آسکوں تو ضرور آپکی مدد کروں گا ۔ اس نے میری جانب دیکھا اور روتی ہوئی بولی میرا یہاں کوئی نہیں میں ایک گھر میں ملازمت کرتی تھی جہاں مجھ سے بے تحاشہ کام لیتے تھے اس لئے میں وہاں سے بھاگ گئی ہوں مجھے کسی طرح انڈونیشیا جاناہے مگر میرے پاس نہ تو رقم ہے اور نہ ہی رہنے کا ٹھکانہ  ایسے میں جائوں تو کہاں جائوں ؟  یہ کہہ کر پھر رونے لگی ۔ اسے  روتا دیکھ کر میں پریشان ہو گیا ساتھ ہی یہ خیال آرہا تھا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ پھنس جائوں مگر ہمت کرکے میں نے اس سے پوچھا تمہارا یہا ں کوئی واقف کار ہے تو میں اس کے گھر تمہیں لے جاوں ۔ اس نے کہا کہ میر ی ایک دوست ہے مگر اسکا ایڈریس میرے پاس نہیں ہے ۔ فی الحال مسئلہ یہ تھا کہ اس خاتون کو کہاں اور کس کے پاس  چھوڑا جائے ۔کافی سوچ بچار کے بعد خاتون کو اپنے ایک جاننے والی فیملی کے یہاں لے گیا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ نہ میرے پاس اتنی رقم تھی کہ اسے ٹکٹ اور دیگر اخراجات دیکر اسکے ملک روانہ کر سکوں ۔ کئی دن اسی خاندان کے یہاں رہنے کے بعد خاتون  نے کہا کہ وہ اس طرح نہیں رہ سکتی کب تک کسی پر بوجھ بنے گی اس کا کہنا تھا کہ وہ کہیں کام تلاش کرتی ہے تاکہ گزارا کیاجاسکے ۔ فضل عباس نے بتایا کہ کچھ دن بعد خاتون اپنی ایک ہم وطن کو تلاش کر کے وہاں منتقل ہوگئی ۔میں نے سکون کا سانس لیاکہ ایک بے آسراء خاتون کو مناسب جگہ مل گئی ۔ زندگی کے ایام یوں ہی گزررہے تھے کہ اچانک ایک دن وہی میرے واقف کار جہاں  انڈونیشی خاتو ن نے کچھ عرصہ اس نے قیام کیا تھا کے گھر آگئی اور میرے بارے میں پوچھا ۔ میں انکے گھر روز انہ نہیں جاتا تھا اور نہ ہی ان دنوں موبائل فو ن کی سہولت عام تھی ۔ میرے دوست نے پیغام بھیجا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے اس لئے فورا گھر آئوں میں جب اسکے گھر پہنچا تو وہاں وہی خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ اب اپنے ملک نہیں جا سکتی کیونکہ ٹکٹ کی رقم ہے اور نہ ہی پاسپورٹ ا س لئے کہیں بہتر کام تلاش کر دیں ۔ میں ایک بار پھر اس کیلئے کام تلاش کرنے میں لگ گیا بالاخر ایک گھر میں ملازمت دلوا دی جہاں وہ کام کرتی رہی ۔ کچھ عرصہ بعدمیری اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کب تک اسی طرح کام کرتی رہو گی۔ میرے سوال کا جواب دیتے  ہوئے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے روتے ہوئے کہا میری ماں اور 6 بہنیں ملک میں میری بھیجی ہوئی رقم سے گزاراکرتی ہیں۔ اگر میں ان کو رقم نہیں بھیجوں گی تووہ مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ ہر شخص اپنی جگہ مجبور و بے بس ہے ہر کسی کی اپنی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں الغرض میں نے بھی اسکی کسی حد تک مدد کرنا شروع کردی ۔ ہمارے درمیان اچھی شناسائی ہو گئی تھی وہ جہاں کام کرتی تھی وہ لوگ انتہائی شریف اور انسان دوست تھے ۔ میرا اکثر انکے گھر جانا ہو تا تھا کیونکہ اس گھر کی ایک خاتون جو ٹیچر تھی میں روزانہ پک اینڈ ڈراپ کرتا تھا ۔ ایک دن اسکول سے واپسی پر خاتون نے مجھ سے کہا فضل تم کیوں اس انڈونیشی سے شادی نہیں کر لیتے۔ اس طرح اسے تمہاری صورت میں ایک سہارا مل جائے گا اور تمہیں بھی سہولت ہو گی ۔ میں یہ سن کر حیران ہوا۔ ساتھ ہی میں نے پوچھا کہ کیا وہ خاتون راضی ہوگی ؟ میں نے یہ بھی بتایاکہ میں شادی شدہ ہو ں اور بچے پاکستان میں ہیں۔دوسرے دن جب میں اسکول لے جانے کیلئے پہنچا تو خاتون نے گاڑی میں بیٹھتے ہی بولا " فضل تم شادی کی تیاری کرو ۔وہ راضی ہو گئی ہے اور خوش بھی ہے " ۔ 
 
اس طرح ہماری شادی ہو گئی شاید قدرت کو یہی منظور تھا ۔ شادی کے کچھ عرصہ تک حالات کافی اچھے تھے ۔ میں نے قریب ہی ایک گھر لے لیا ۔ اس وقت ہمارے 5 بچے ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیونکہ میری اہلیہ کے پاس اقامہ نہیں تھا اس لئے بچوں کے پیدائشی سرٹیفیکٹ سرکاری ادارے سے حاصل نہیں کر سکا ۔نہ ہی انہیں اسکو ل میں تعلیم دلواسکا ۔ بچوں کے ساتھ رہ رہا ہوں سمجھ نہیں آتا کہ کیاکروں ۔ اس وقت حکومت سعودی عرب نے 3 ماہ کی مہلت کا اعلان کیا ہے کہ اس میں وہ تمام افراد جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں وہ اپنے ملکوں کو جا سکتے ہیں ان پر کسی قسم کا جرمانہ بھی عائد نہیں کیا جائے گا ۔ اس موقع پر ہماری ارباب اختیار سے فریاد ہے کہ خدارا ہمیں ہمارے بچوں اور انکی ماں کے ساتھ وطن روانہ کروا دیں تاکہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کچھ کر سکیں ۔ یہاں انہیں نہ اسکول بھجوا سکتے ہیں اور نہ ہی انکا قیام قانونی کروا سکتے ہیں کیونکہ یہ مہلت صرف وطن روانہ ہو نے کیلئے ہی ہے ۔ 
 
محمد اکرام نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ درزی کا کام کرتا ہے 20 برس قبل مملکت آیا تھا ۔ اس  وقت کام بہت اچھا تھا وقت بہت اچھی طرح گزر رہا تھا مگریہ حقیقت  ہے کہ وقت کبھی ایک جیسانہیں رہتا ۔ میں بھی حالات کے اتار چڑھائو کا شکار ہو گیا ۔ محمد اکرام نے بتایا کہ وہ پنچاب کا رہنے والا ہے 2003 میں انڈونیشی خاتون سے شادی کی جس سے اس وقت میری 3 بیٹیاں ہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹیاں کسی اور ملک جائیں اور وہاں ہماری تہذیب و ثقافت کو بھلا دیں ۔ اس وقت میں حالات کی چکی میں پس رہا ہو ں۔ کام مکمل طور پر ختم ہو چکاہے ۔ کفیل نے دکان بند کر دی ہے کوئی اور ذریعہ روزگا ر نہیں ہے ۔ کس طرح سے ہمارے شب و روز گزر رہے ہیں یہ ہم ہی جانتے ہیں اس کااندازہ آپ لوگ نہیں لگا سکتے۔  قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے ہمارا بھی جو حال ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں ۔ میری حکومت پاکستان اور ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ خدارا ہم بے آسراء ہیں ہماری مدد کریں اور حکومت سعودی عرب نے جو مہلت دی ہے اس دوران ہمیں وطن بھجوا دیں ۔ میری بیٹیاں چھوٹی ہیں جو اپنی والدہ کے بغیر نہیںرہ سکتی اس لئے میں یہ درخواست کروں گاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر میری اہلیہ کو بھی ویزہ جاری کیا جائے تاکہ ہمارا خاندان جدا نہ ہو اور میری بیٹیاں اپنی والدہ کے زیر سایہ پروان چڑھیں ۔ محمد اکرام کا کہنا تھا کہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس نے غلطی کی جس کی سزا و ہ بھگت رہا ہے ۔لیکن جو غلطی وہ کر چکا ہے اس میں ان معصوم بچیوں کا کیا قصور ؟  قانون شہریت کے تحت بچے والد کی شہریت کے حقدار ہو تے ہیں اس اعتبار سے میں اپنی بیٹیوں کو پاکستانی  بنانا چاہتا ہوں ۔ اسکا کہنا تھا کہ میرے لئے یہ بہت آسان ہے کہ میں بچوں کو انکی والدہ کے ساتھ انڈونیشیا بھجوا دوں اور خو د پاکستان چلا جائوں  لیکن کیا یہ انصاف کا تقاضہ ہو گا ؟ 13    برس جس خاتون کے ساتھ میں نے زندگی کے ایام گزارے جو میرے بچوں کی ماں ہے اس نے میرے ساتھ زمانے کے ہر سرد وگرم برداشت کئے میں کس طرح ان سے لاتعلق ہو جائوں ؟ میرا ضمیر یہ گوار ا نہیں کرتا ۔ 
 
طارق حسن کا تعلق پاکستان کے فیصل آباد سے ہے عرصہ 23 برس سے جدہ میں مقیم ہے ۔ اپنی کہانی سناتے ہوئے طارق کا کہنا تھا کہ وہ لیموزین کمپنی میں کام کرتا تھا ۔ 15 برس قبل اس نے ایک انڈونیشی خاتون سے شادی کی تھی جس سے اسکے 4 بچے ہیں جن میں 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں شامل ہیں ۔ طارق کا کہنا تھا کہ اس نے اچھی نیت سے شادی کی تھی تاکہ کسی قسم کے غلط کاموں میں ملوث نہ ہو سکوں ۔ شادی کے ابتدائی ایام میں حالات بہتر تھے اس لئے کوئی خاص فرق محسوس نہ ہو ا مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی بگڑتے گئے ۔ اس وقت 4 بچوں اور اہلیہ کی مہ داری ہے ۔ پاکستان جانا چاہتے ہیں مگر بچوں کو چھوڑ کر نہیں ۔ اسکا کہنا تھا کہ حتی المقدور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرنے کی کوشش کررہا ہوں مگر اس قدر مشکلات میں گھر چکا ہوں کہ کوئی راستہ سمجھ نہیں آتا ۔ شادی تو شرعی طریقے سے کی مگر قانونی تقاضے پورے نہ کر سکا ا سلئے مشکلا ت کا شکار ہو گیا ہوں ۔ بچوں کی ماں کا اقامہ نہیں تھا اس لئے بچوں کے برتھ سرٹیفیکٹ حاصل نہ کئے جاسکے ۔ سرکاری ادارے سے برتھ سرٹیفیکٹ اس وقت تک جاری نہیں کئے جاسکتے جب تک والدین کا قیام قانونی نہ ہو یعنی دونوں کے پاس اقامہ ہونا لازمی ہے ۔ طارق کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے معروف سیاستدان عابد شیر علی کا ہم جماعت بھی رہ چکا ہے ۔بچوں کے ساتھ پاکستان منتقل ہونے کے سوال پر آبدیدہ ہونے والے طارق کا کہنا تھا کہ ہم نے کونسا عظیم جرم کر دیا ؟  جائز طریقے سے شادی ہی تو کی ہے نا؟ اب اس کی کیا سزا ہو گی ؟ سزا تو ہم کاٹ رہے ہیں ۔ روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں ۔ پاکستان میں والدین ہر دن انتظار کرتے ہیں کہ کب میں وطن جاکر انکی خدمت کروں گا ۔ میں نے سفارتخانے کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا  ہے مگر وہاں سے ہمارے لئے کوئی جواب نہیں ملا ۔ اب جبکہ حکومت سعودی عرب نے تمام غیر قانونی تارکین کے لئے مہلت کا اعلان کیا ہے تو ایسے میں ہمیں امید کی کرن دکھائی دی ہے ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہماری مشکلات دن ختم ہو نے کوہیں ( انشاء اللہ ) ۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی مہلت کے بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں ۔ میری پاکستانی سفارتخانے اور ارباب اختیار سے پرزور اپیل ہے کہ ہماری حالت پر رحم کرتے ہوئے ہمیں بچوں سمیت پاکستان بھجوانے کی راہ نکالیں ۔  سفیر پاکستان اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ بچے چھوٹے ہیں جو اپنی ماں کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ انہو ںنے زندگی میں کبھی پاکستان نہیں دیکھا اس لئے اگر انکی والدہ بچوں کے ہمراہ نہیں جاسکی تو ہمارے لئے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی ا س کے بعد صورتحال کیا ہوگی ۔ یہ سوچ ہی ہمیں پریشانیوں کے اندھروں میں لے جاتی ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ بھی دکھائی نہیں دیتی ۔ 
 
محمد حنیف بھی انہی مسافروں میں شامل ہے جن کی منزل اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ نہ ہی وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں کہ انکے ساتھ کیا ہو گا  نہ ہی اپنے بارے میں ۔ 26 برس قبل پاکستان کے شہر کہوٹہ سے بہتر روزگار کی تلاش میں جدہ آنے والے محمد حنیف کو معلوم نہیں تھا کہ  تقدیر اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والی ہے ۔ لیموزین کمپنی میں ڈرائیور ی کرتے ہوئے حنیف کے کئی برس بیت چکے تھے وہ اپنی زندگی سے مطمئن تھا ۔ دیگر ڈرائیور ں کی طرح بچت کی رقم پاکستان ارسال کرتا رہتا تھا ۔اسی طرح اس کے شب و روز گرز رہے تھے کہ اس کی زندگی میں آنے والے ایک دن اسے کہاں لے گیا یہ اسے بھی آج تک معلوم نہ ہوسکا ۔ اپنے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ " ایک دن میں حسب معمول ٹیکسی لیکر نکلا۔ صبح سے کوئی معقول سواری نہیں ملی تھی ۔ دوپہر ہو چکی تھی میں نے سوچا کہ گھر جاکر کچھ دیر آرام کرتا ہوں یہ سوچ کر میں نے گاڑی موڑی اور اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔ ابھی میں گھر سے کافی دور تھا کہ سڑک  کے کنارے کھڑی ایک عورت نے ٹیکسی روکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے سواری سمجھ کر گاڑی روک دی ۔ برقع پوش خاتون  مجھے کچھ کہے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئی اور کہا اسے بلد جانا ہے ۔ جس علاقے میں تھا وہ بلد سے کافی دور تھا میں نے گاڑی بلد کی جانب موڑی ابھی میں چند فرلانگ ہی چلا تھا کہ سواری نے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اگرو ہ مجھے مفت میں لے جائے تو ممنون احسان ہو نگی ۔ میں جو صبح سے کسی سواری کی تلاش میں تھا۔ یہ سن کر ایک دم اداس ہو گیا مگر دوسرے ہی لمحے میرے دل نے کہا کسی غریب کی مدد کرو یہ بڑی نیکی ہے ۔ یہ سوچ کر میں خاموش ہو گیا اور اس سے ایڈریس لیکر وہاں پہنچا دیا ۔ اس کے بعد معلوم نہیں کس طرح ہمارا دوبارہ رابطہ ہو ا اور اس نے اپنی کہانی سنائی جسے سن کر میں بھی پریشان ہو گیا ۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ بے آسراء ہے اور یہاں اس کا کوئی نہیں ۔ انڈونیشیامیں اس کی ماں اور بہنیں ہیں جن کی بہتر زندگی کیلئے وہ یہاں آئی مگر جس گھر میں کام کرنے آئی تھی وہاں اس کے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے میں وہاں سے بھاگ گئی ۔ اس نے مجھ سے اس طرح التجاء کی کہ مجھے پنا ہ دے دو۔میں ساری زندگی یہ احسان نہیں بھولوں گی ۔ میں نے سوچا کہ اگر میں اسے گھر میں رکھتا ہوں تو یہ مناسب بات نہیں ہو گی ۔ یہ سوچ کر میں نے اسے شادی کی پیشکش کی جسے اس نے قبول کر لیا ۔ اس طرح ہماری شادی ہوگئی ۔ ابتداء میں دن بہت اچھے گزرے مگر چند برس قبل جس کمپنی میں میں ملازم تھا وہ بند ہو گئی اور کفیل نے ہروب لگا دیا ۔ 2013 میں جب سعودی حکومت نے شاہی مہلت کا اعلان کیا تو میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان منتقل ہو جائوں ۔میں بچوں اور اہلیہ کے لئے سفر کی کوئی گنجائش نہ نکل سکی ا س لئے مجبور ہو گیا ۔ اب جب کہ حکومت نے دوبارہ عام معافی کا اعلان کیا ہے تو میں دوبارہ قونصلیٹ گیا تاکہ بچوں اور اہلیہ کے سفر کا کوئی بندوبست کر سکوں مگر وہاں بھی ہمیں یہی کہا گیا کہ پاکستان سے کوئی جواب نہیں آیا ہے اس لئے ابھی انتظار کریں ۔قونصلیٹ والے یہ پوچھتے ہیں کہ بچوں کا پیدائشی سرٹیفیکٹ لائو ۔ میرا ان سے سوال یہ ہے کہ وہ ہم کہاں سے لائیں ؟ کیونکہ میرا اقامہ ختم ہو چکا ہے اور کمپنی بھی ختم ہو گئی ہے ۔ 4 برس قبل بھی ہم نے کوشش کی تھی مگر نہیں جا سکے اب دوبارہ یہ اعلان کیا گیا ہے تو ایک بار پھر امید کی کوئی کرن ہمیں دکھائی دی ہے ۔ میری سفیر پاکستان سے گزارش نہیں بلکہ فریاد ہے کہ ہمارے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کچھ کیا جائے ۔ ہم بے آسراء اور بے یار و مدد گار ہیں ۔ ہمارے بچوں کے سفری دستاویزات اور خرچ کا بندو بست سفارتخانہ کر دے تو ہم انکے تاحیات شکرگزار رہیں گے ۔ ویلفئیر فنڈ کی مد سے ہماری مدد کرتے ہوئے ہمیں ٹکٹ فراہم کئے جائیں کیونکہ عرصہ سے بے روز گار بیٹھے ہیں اس مہنگائی کے دور میں کس طرح ہم اپنے روز و شب گزارتے ہیں وہ ہمارا رب ہی جانتا ہے ۔ کئی کئی ماہ ہو جاتے ہیں کہ ہم گوشت کی شکل نہیں دیکھ سکتے بچے سوکھی روٹی اور اندومی پر گزار کرتے ہیں ایسے میں ہزارو ں ریال کے ٹکٹ ہماری قوت خرید سے باہر ہو نگے ۔ سفیر پاکستان ہماری اس فریاد پر غور کریں اور خصوصی احکامات جاری کرتے ہوئے ہمارے لئے ٹکٹ کا اعلان بھی کر دیں تو انکے کارہائے نمایاں اور میزان حسانات میں اضافہ کا سبب نبے ہو گا ۔ 
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

غیر ملکی ماوں کے بچوں کو آئوٹ پاس جاری کئے جائینگے، شہریار 

 
اقدام کا مقصد شاہی مہلت سے استفادہ کا موقع فراہم کرنا ہے ،قانون شہریت کے مطابق بچوں کو والد کے وطن کی شہریت اختیار کرنے کا حق ہے، قونصل جنرل پاکستان
 
پاکستانی قونصل جنرل شہریار اکبر خان کا شمار ان افسران میں ہوتا ہے جو ملک و قوم کیلئے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرتے ہیں ۔ قونصلیٹ کا چارج سنبھالنے کے بعد اخبار نویسوں سے جو ملاقات کی تھی اس میں انہو ںنے واضح طور پر کہاتھا کہ انکے عزائم کیا ہیں اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہریار نے ثابت کر دیا کہ انہو ںنے روز اول جو کھا تھا اس پر عمل بھی کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ 100 فیصد تو کوئی بھی نہیں ہوتا اور انسان میں خوبی اور خامی دونوں موجود ہوتی ہیں تاہم بہتر وہ ہوتا ہے جس میں مثبت عنصر زیادہ ہو ۔ مملکت میں مقیم غیر قانونی تارکین کی وطن واپسی کیلئے  29 مارچ 2017 سے شروع ہونے والی عام معافی کے حوالے سے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی قونصلیٹ میں بھی خصوصی کیمپ قائم کئے گئے تاکہ غیر قانونی طور پر مقیم ہم وطنوں کو بہتر سہولتیں فراہم کی جاسکیں ۔ غیر قانونی تارکین میں بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے   جنہوںنے غیر ملکی خواتین سے شادی کی ہوئی ہے ۔ عام معافی کے حوالے سے جب اردونیوز نے ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ صرف جدہ میں  اس طرح کے خاندانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس سوال کے ساتھ جب ہم نے قونصل جنرل شہریار اکبر خان سے رجوع کیا کہ ان خاندانوں کا کیا ہو گا ؟ کیا یہ لوگ ہمیشہ کیلئے بچھڑ جائیں گے ؟  ہمارے استفسار پر قونصل جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق ہم اپنے ہم وطنوں کے بچوں کو جن کی والدہ غیر ملکی ہیں انہیں آئوٹ پاس جاری کر سکتے ہیں تاہم اس کیلئے انہیں اسپتال کی جانب سے جاری کیا جانے والا پیدائش کا عارضی ثبوت پیش کرنا ہو گا ۔ ایسے بچوں کو آئوٹ پاس جاری کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ پاکستان سفر کر سکتے ہیں ۔  قانون شہریت کے مطابق غیر ملکی ماوں کے بچوں کو اپنے والد کی شہریت حاصل کرنے کا حق ہے ۔سوال کا دوسر حصہ ان بچوں کی والدہ کے بارے میں تھا کے بارے میں قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ ہم بھی نہیں چاہتے کہ خاندان جدا ہو ۔بین الاقوامی قوانین کے مطابق اگرخاتون اپنے ملک کے سفارتخانے سے پاسپورٹ حاصل کر لیتی ہے تو ہم انہیں پاکستان کا ویزہ جاری کر سکتے ہیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 

معاملے کی نزاکت سے واقف ہیں ، مسائل بہتر طور پر حل کریں گے، محمد ہیری

 
  18 سال کی عمرکو پہنچنے والے بچے والد یا والدہ کے ملک کی شہریت حاصل کرسکتے ہیں ، دو طرفہ بات چیت کی کوشش کریں گے ،انڈونیشی قونصل جنرل
 
جدہ میں انڈونیشی قونصل جنرل محمد ہیری کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے غیر قانونی تارکین کو دی جانے والی مہلت کے حوالے سے ہم اپنے ان شہریوں کو وطن بھجوانے کیلئے کوشاں ہیںجو غیر قانونی طور پر مملکت میں مقیم ہیں ۔ جہاں تک سوال ہے ان انڈونیشی خواتین کا جنہو ںنے غیر ملکیوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں اور ان سے انکے بچے بھی ہیں ان کیلئے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا انکی شادی انڈونیشی قانون 1974 کی شق نمبر ایک کے مطابق  ہے یا نہیں ۔یعنی شادی کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں بچوں کی شہریت کا تعین  خون کے نمونے ( DNA )سے کیا جائے گا جس کے بعد بچوں کوا نڈونیشی شہریت جاری کی جائے گی ۔ جب یہ بچے 18 برس کے ہو ں گے تو یہ انکا اختیار ہو گا کہ وہ کون سی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں آیا وہ اپنی ماں کی شہریت رکھتے ہیں یا والد کی شہریت حاصل کرتے ہیں ۔ قانون کے مطابق وہ افراد جن کی شادی قانونی طور پر رجسٹرڈ ہو گی انکے بچوں کو اختیار ہو گا کہ وہ جس ملک کی شہریت چاہیں اختیار کر سکتے ہیں ۔ مملکت میں مقیم غیر قانونی طور پر مقیم انڈونیشی خواتین کو پاسپورٹ جاری کرنے کے سوال پر قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ایسی خواتین کو ایمرجنسی آئوٹ پاس جاری کیا جاسکتا ہے جو انکے یک طرفہ سفر ( انڈونیشیا) کیلئے کارآمد ہو گا ۔ تاہم ایسے بچوں کو پیدائشی سرٹیفیکٹ انڈونیشی قونصلیٹ کی جانب سے جاری کیا جائے گا جن کے والدین غیر قانونی ہوں یا انکے والد کسی اور ملک سے تعلق رکھتے ہوں اس امر کے تعین کا اختیار قونصلیٹ کو ہوگا ۔ قونصل جنرل محمد ہیری نے اس بات کا بھی یقین دلایا کہ وہ حالات کی نزاکت ( خاندانوں کے بچھڑنے ) سے بھی بخوبی واقف ہیں اور انسانی ہمدردی کے تحت اس بات کے خواہاں ہیں کہ معاملے کو  خوش اسلوبی  سے حل کیا جاسکے ۔ اس حوالے سے  دوطرفہ بات چیت کے ذریعے بہتر اور مناسب حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ بچوں اور  انکے خاندان کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے  ۔ 
 

شیئر: