جولائی میں دنیا کے گرم ترین مقام ’ڈیتھ ویلی‘ جاتے سیاح، ’جھونکا لُو بن کے آتا ہے‘
جولائی میں دنیا کے گرم ترین مقام ’ڈیتھ ویلی‘ جاتے سیاح، ’جھونکا لُو بن کے آتا ہے‘
ہفتہ 15 جولائی 2023 8:01
’ڈیتھ ویلی‘ میں لگا سائن بورڈ جس پر شدید گرمی سے خبردار کیا گیا ہے (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)
امریکہ میں جہاں ایک طرف شدید گرمی کی لہر جاری ہے اور درجہ حرارت میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے، وہیں سیاح روئے زمین کے گرم ترین علاقے ’ڈیتھ ویلی‘ صحرائی پارک میں پہنچ رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ صحرائی علاقہ کیلیفورنیا اور نویڈا کی سرحد پر واقع ہے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے سیاح ڈینیئل جوسیس نے دورے کے موقع پر تھرمامیٹر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو جھلساتی گرمی کے چیلنج سے گزار رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جو چیز مجھے خصوصی طور پر محسوس ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ مجھے زیادہ گرمی نہیں لگ رہی ہے۔‘
تھرمامیٹر کی تصویر میں پارہ 120 ڈگری فارن ہیٹ (48 اعشاریہ آٹھ) ڈگری سیلسیس نظر آ رہا ہے۔
زیادہ تر سیاح اپنی ایرکنڈیشنڈ گاڑیوں سے نکل کر پارک میں کسی حد تک آگے جاتے ہیں اور مختصر وقت گزار کر واپسی کی راہ لیتے ہیں۔
علاقے کی انتظامیہ کا کہنا ہے ہفتے کے آخر تک درجہ حرارت 130 فارن ہیٹ (54 اعشاریہ چار سیلسیس تک جا سکتا ہے تاہم یہ ’انتباہ‘ بھی ان لوگوں کا راستہ روکتا دکھائی نہیں دے جو ’بہادری سے گرمی سے لڑنے‘ کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس علاقے میں لگے سائن بورڈ پر صبح 10 بجے کے بعد وہاں نہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں تاہم یہاں رات کے وقت بھی درجہ حرارت 90 فارن ہیٹ (32 اعشاریہ دو) سیلسیس سے زیادہ رہنے کا امکان ہوتا ہے۔
پارک کے ریکارڈ کے مطابق جولائی 1913 میں یہاں سب سے زیادہ درجہ ریکارڈ ہوا تھا جو کہ 134 فارن ہیٹ (56 اعشاریہ چھ) سیلسیس تھا۔
ڈیتھ ویلی پارک کی انتظامیہ وہاں جانے والوں پر زور دیتی ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے حوالے ممکنہ اقدامات کریں تاہم صحرا میں گاڑی چلانے والوں کی کسی حد تک مدد کی جا سکتی ہے لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ صحرا میں بھٹکنے والوں کو وقت پر مدد مل جائے گی۔
ہر سال 10 لاکھ سے زائد افراد اس صحرائی پارک کا دورہ کرتے ہیں اور اس تعداد کا پانچواں حصہ جون، جولائی اور اگست میں یہاں آتا ہے۔
زیادہ تر سیاح وہاں کچھ نیا دیکھنے کی خواہش وہاں جاتے ہیں تاہم ٹیلوں پر چڑھنے کی وجہ سے گرمی کا احساس بڑھ جاتا ہے یہاں تک سورج غرب ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک چٹانیں اور ریت گرم رہتی ہے۔
پارک کے انتظامی عہدیدار نیکول اینڈلر کا کہنا ہے کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دھوپ آپ کی کھال سے ہوتی ہوئی ہڈیوں میں اتر رہی ہے۔‘
اسی طرح بعض سیاحوں نے صحرا میں چلنے والی لُو سے آنکھیں خشک ہونے کا ذکر کیا ہے۔
سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے الیسیا ڈیمپسٹر کے مطابق ’یہاں بہت گرمی محسوس ہوتی ہے اور ہوا کے جھونکے کی خواہش لُو سے پالا پڑتا ہے۔‘
ویلی کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق یہ سطح سمندر سے نیچے ہے اور اس میں کچھ مقامات بہت تنگ ہیں جبکہ ٹیلے بھی موجود ہیں جن پر پودے بہت کم ہیں جس کی وجہ سے براہ راست دھوپ پڑتی ہے جس سے سب کچھ بہت گرم ہو جاتا ہے اور اس دوران تیز گرم ہوا چلتی ہے۔