Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم حکومت نے 15 ماہ میں کون کون سی اہم قانونی ترامیم کیں؟

موجودہ حکومت نے 15 ماہ کے دوران تین مرتبہ قوانین میں ترامیم کیں۔ فوٹو: ریڈیو پاکستان
پاکستان میں پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت چند دنوں کی مہمان رہ گئی ہے۔ اپنے 15 ماہ کے اقتدار میں اتحادی حکومت نے 67 ایکٹ آف پارلیمنٹ منظور کروائے جن کے تحت الیکشن کمیشن، نیب، سپریم کورٹ اور معیشت کے علاوہ سرکاری ملازمین کے لیے قانون سازی کی گئی۔
9 اپریل 2022 کو عدم اعتماد کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم کرتے ہوئے پی ڈی ایم جماعتوں اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے اگلے ہی روز شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا۔  
اقتدار سے نکلنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ موجودہ حکومت اپنے کرپشن کیسز معاف کرانے اور انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے قانون سازی کرے گی اور تحریک انصاف کے دور میں بنائے گئے قوانین کو ریورس کر دے گی۔ یہ تاثر اس وقت درست ثابت ہوا جب حکومت نے پاؤں جماتے ساتھ ہی نیب اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم شروع کر دیں۔  
15 ماہ کے دوران موجودہ حکومت نے تین مرتبہ نیب قوانین جبکہ دو دفعہ انتخابی قوانین میں ترمیم کی جس سے نہ صرف ان جماعتوں کی قیادت کو سیاسی فائدہ ہوا بلکہ بہت سے لوگوں کے مقدمات بھی ختم ہوئے۔  
نیب ایکٹ میں ترامیم 
مئی 2022 میں حکومت نے نیب قوانین میں پہلی ترمیم کی جس کے تحت نیب کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے نیب کو پابند بنایا گیا کہ وہ گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب کورٹ میں پیش کرے گا۔ کسی بھی معاملے پر نیب چھ ماہ کے اندر اندر انکوائری مکمل کرنے کا بھی پابند ہوگا۔ اسی طرح ریمانڈ کی مدت 90 دن سے کم کر کے 14 یوم کر دی گئی۔  
وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے جبکہ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا۔ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے۔ اسی طرح کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بے قاعدگی اور کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیے۔  
اس بل کے تحت ایک ہی شخص کی چیئرمین نیب کے لیے دوربارہ تقرری پر پابندی بھی عائد کی گئی۔
اگست 2022 میں حکومت نے نیب قوانین میں دوسری ترمیم کی جس کے تحت احتساب عدالت کے ججز کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا، جبکہ ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے سے مدد لینے کا نیب کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا۔
بل کے تحت ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہو گا جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ نیب آرڈیننس کا اطلاق حکومت کی ایمنسٹی سکیم کے تحت لین دین، ریاستی ملکیت کے اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر نہیں ہو گا۔ پچاس کروڑ روپے سے کم کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ صدر وفاقی حکومت کی سفارش پر پراسیکیوٹر جنرل مقرر کرے گا۔ 
بل کے مطابق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد نیب ریفرنس دائر  کرے گا، یہ حتمی ریفرنس ہو گا اور کوئی اضافی ریفرنس دائر نہیں کیا جائے گا۔ اضافی ریفرنس صرف اس صورت میں عدالت کی اجازت سے دائر ہو گا۔  

نیب قانون میں ترامیم سے بہت سے لوگوں کے کیسز معاف ہوئے۔ فوٹو: ٹوئٹر

مئی 2023 میں حکومت نے نیب ایکٹ میں تیسری مرتبہ ترمیم کی اور چیئرمین نیب کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے انھیں اختیار دیا کہ وہ نیب کے اختیار میں نہ آنے والے کسی بھی مقدمے کو متعلقہ ادارے یا اتھارٹی کو کارروائی کے لیے بھجوا سکتے ہیں جہاں اس مقدمہ کے تحت کارروائی آگے چلائی جا سکے گی۔  
نیب عدالت سے مقدمے کی واپسی پر متعلقہ محکمہ یا اتھارٹی اپنے قوانین کے تحت مقدمہ چلا سکے گی، احتساب ترمیمی ایکٹ 2022 اور 2023 سے پہلے جن مقدمات کا فیصلہ ہوچکا وہ نافذ العمل رہیں گے۔ 
نیب انکوائری میں مطمئن نہ ہونے پر چیئرمین نیب متعلقہ عدالت کو کیس ختم کرنے اور ملزم کی رہائی کے لیے منظوری کے غرض سے بھیجنے کا مجاز ہوں گے۔ 
نیب ایکٹ میں چوتھی مرتبہ ترمیم آرڈیننس کے ذریعے ابھی حال ہی میں کی گئی ہے جس کے تحت 14 روز کے ریمانڈ کی مدت بڑھاتے ہوئے اسے 30 دن کر دیا گیا ہے۔  
نیب ترامیم سے کون کون مستفید ہوا؟  
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں نیب ترامیم سے جن جن سیاست دانوں کو فائدہ پہنچا ان میں سابق وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، سابق رکن اسمبلی گلگت بلتستان جاوید حسین، لیاقت علی جتوئی، سابق گورنر کے پی مہتاب احمد خان، سابق وزیر صحت گلگت بلتستان گلبہار خان شامل ہیں۔  
موجودہ حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم سے وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم نوازشریف، فرزانہ راجہ، یوسف رضا گیلانی، سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کا بیٹا بھی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ 
سابق وزیراعظم شوکت عزیز، ظفر گوندل، صادق عمرانی، نواب اسلم رئیسانی، لشکری رئیسانی، اسفند یار کاکڑ، ارباب عالمگیر، عاصمہ ارباب عالمگیر، شیر اعظم وزیر کو بھی نیب ترامیم سے فائدہ پہنچا۔ 

مئی 2022 میں نیب قانون کے ساتھ ہی حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی (فوٹو: اے ایف پی)

موجودہ حکومت کا موقف ہے کہ ان کی جانب سے کی گئی نیب ترامیم کا سب سے پہلا فائدہ سابق وزیراعظم عمران خان کو پہنچ رہا ہے۔  
الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم  
مئی 2022 میں نیب قانون کے ساتھ ہی حکومت نے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے انتخابی قوانین میں کی گئی تبدیلیوں کو ختم کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی۔  
اس ترمیم کے تحت انتخابات کے انعقاد کے لیے ای وی ایم مشین کے لازمی استعمال کی شرط ختم جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق ختم کرتے ہوئے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا۔  
اسی طرح سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد حکومت نے ایک مرتبہ پھر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی۔
اس ترمیم کے تحت الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے۔ جس کے تحت الیکشن کمیشن نیا شیڈول اورعام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا جبکہ الیکشن پروگرام میں ترمیم بھی کر سکے گا۔ 
اس بل کے تحت نا اہلی کی سزا کا تعین کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ آئین میں جس جرم کی سزا کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا وہاں نا اہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ جبکہ الیکشن ایکٹ کی اہلی اور نااہلی سے متعلق سیکشن 232 میں ترمیم اہلیت اور نااہلی کا طریقہ کار وضع کیا گیا، طریقہ اور مدت ایسی ہو جیسا آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں فراہم کیا گیا ہے۔ 
بل میں کہا گیا ہے کہ جہاں آئین میں اس کے لیے کوئی طریقہ کار، طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی ہے، اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی جبکہ سپریم کورٹ، ہائیکورٹ یا کسی بھی عدالتی فیصلے، آرڈر یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص فیصلے کے دن سے پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکے گا۔ 
مجوزہ بل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 کی کلاز ون ایف کے تحت پانچ سال سے زیادہ کی نااہلی کی سزا نہیں ہو گی۔ متعلقہ شخص پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہوگا۔ 

صدر نے اسلام آباد کی مقامی حکومت سے متعلق بل پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا (فوٹو: اے پی پی)

پارلیمنٹ بمقابلہ صدر پاکستان
گذشتہ ایک سال میں الیکشن کمیشن اور نیب سے متعلق جتنی بھی قانون سازی کی گئی۔ صدر مملکت نے ان بلوں پر دستخط کرنے سے گریز کیا۔ صدر نے الیکش ایکٹ اور نیب ترمیم بلوں کو یہ کہہ کہ وزیراعظم کو واپس بھیجا کہ ان کی منظوری میں قانونی تقاضے پوے نہیں کیے گئے یا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔  
اسی طرح صدر نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دونوں ایوانوں سے الگ الگ پاس ہونے کے بعد اور پھر مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد بھی دستکظ کرنے سے انکار کیا تھا۔ تاہم آئین کے مطابق بل دس دن کے بعد از خود ہی ایکٹ بن جاتا ہے۔  
صدر نے اسلام آباد کی مقامی حکومت سے متعلق بل پر بھی دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔  
سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی  
موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کم یا ریگولیٹ کرنے کے لیے بھی قانونی سازی کی۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کرایا۔
اس بل کے تحت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سوموٹو نوٹس لینےکا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے تین سینیئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔ سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائے گا۔ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔ 
آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پرتین یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا۔ آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ہو گا، جبکہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جا سکے گی۔ دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر ہوگی۔ زیر التوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا۔  
اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینے کے 14 روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔ 
اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ آرڈر 2023 بھی پاس کیا ہے جس کے تحت از خود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت نظر ثانی کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہوگا۔ 
اس قانون کے تحت دوسری اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ نظرثانی کی اپیل کی سماعت اس بینچ سے بڑا بینچ کرے گا، جس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی ہو۔ قانون کے تحت اپیل کنندہ کو اپنا وکیل بھی تبدیل کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ نئے قانون کے تحت کسی بھی فیصلے کے بعد 60 دن کے اندر نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ 
اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تحت ان افراد کو بھی اپیل کا حق حاصل ہو گا جن کے خلاف اس قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے فیصلہ سنایا گیا۔ تاہم ایسے افراد کو قانون نافذ ہونے کے 60 دن کے اندر اپیل دائر کرنا ہو گی۔ 

سپریم کورٹ کی جانب سے اتحادی حکومت کو ٹف ٹائم کا بھی سامنا کرنا پڑا (فوٹو: اے ایف پی)

پارلیمنٹ بمقابلہ سپریم کورٹ  
ایک طرف جہاں اتحادی حکومت پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کرکے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتی رہی تو دوسری جانب سپریم کورٹ سے ان کو اس معاملے پر ٹف ٹائم کا بھی سامنا کرنا پڑا۔  
عمران خان کی جانب سے نیب ترمیم، الیکشن ایکٹ ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جس پر طویل سماعتیں گذشتہ ایک سال سے جاری ہیں۔ تاہم جونہی معاملہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر آیا تو بل کے نافذ ہونے سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے اس پر عمل در آمد روک دیا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ریویو اینڈ ججمنٹ آرڈر پر بھی حکومت سے جواب طلب کر رکھا ہے، تاہم اس پر حکم امتناع جاری نہیں کیا۔  
عوامی نوعیت کی قانون سازی  
موجودہ حکومت نے جہاں سیاسی نوعیت کی قانون سازی کی وہیں 15 ماہ میں تین مرتبہ فنانس بل، ٹیکس، تجارت، برآمدات، سفارت کاری اور سرکاری امور کی انجام دہی سے متعلق کئی ایک قوانین منظور کیے۔
دوسری جانب موجودہ حکومت نے عوامی نوعیت کی قانون سازی بھی جن میں سب سے اہم پاکستان میں پہلی بار بچوں کی پڑھائی لکھائی میں مشکل کو دور کرنے کے لیے انقلابی قانون سازی کرتے ہوئے’ڈِس۔لیکسیا‘ سے متعلق قانون منظور کیا گیا۔ قانون کے تحت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ’ڈِس۔لیکسیا‘ کا سامنا کرنے والے بچوں کے لیے خصوصی تربیتی پروگرام شروع کیا جائے گا، جبکہ اساتذہ کو عالمی معیار کی تربیت دی جائے گی۔ 
’ڈِس۔لیکسیا‘ ذہنی عمل کی وہ خرابی ہے کہ جس کا سبب حیاتی کیمیائی جینیاتی مارکرز (نشانات) ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پڑھنے لکھنے کی صلاحیت اور ذہانت کے درمیان ایک واضح خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ 
اس کے علاوہ بچے کی پیدائش پر ماں اور باپ کے لیے چھٹی کا بل منظور بھی کیا جس کے تحت بچے کی پیدائش پر والد کو بھی تنخواہ کے ساتھ 30 دن کی چھٹی مل سکے گی۔
اس بل کے تحت ماں کو پہلے بچے کی پیدائش پر 6 ماہ، دوسرے بچے کی پیدائش پر 4 اور تیسرے پر 3 ماہ کی چھٹی مل سکے گی۔ 

شیئر: