Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا نگراں وزیراعظم تین ملکوں میں کیوں تلاش کیا جا رہا تھا؟

نگران وزیراعظم بننے والے معین قریشی ماضی میں ورلڈ بینک کے ساتھ بطور سینیئر وائس پریزیڈنٹ وابستہ رہ چکے تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
آج پاکستان میں نگران وزیرِاعظم کی تلاش اور انتخاب بحث و مباحثے کا مرغوب موضوع ہے۔ 
ٹھیک 30 برس قبل دیگر ہنگامہ خیر سیاسی واقعات کے پہلو بہ پہلو ایک نگران وزیراعظم کی تلاش کی صورت میں پاکستانی سیاسی تاریخ کا انوکھا باب لکھا جا رہا تھا۔
اگرچہ پاکستان کی اقتدار کی تاریخ میں  سربراہان حکومت کی ایوانِ  اقتدار سے بے دخلی اور رخصتی کے محیّر العقول واقعات پہلے بھی موجود تھے مگر ایک ہی رات میں صدر مملکت، وزیراعظم ،چاروں صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کی ایک ساتھ حکومتی عہدوں سے رخصتی کا شاید پہلا اور آخری موقع تھا۔ 
مئی 1993 میں سپریم کورٹ سے نواز شریف حکومت کی بحالی کے باوجود صدر اور مسلم لیگ نون کی حکومت کی حریفانہ کشمکش نئے بحران میں ڈھل گئی۔ 
جولائی کے اوائل میں صدر، وزیراعظم قائد حزب اختلاف اور آرمی چیف کے درمیان پے در پے ملاقاتوں سے بحران کے خاتمے کی راہ نکل آئی ۔اس سیاسی کھیل کے دو بڑوں غلام اسحاق خان اور نواز شریف کی ایوان اقتدار سے رخصتی کا فیصلہ ہوا ۔ 
اس فیصلے کی جزیات طے کرنے کے لیے ہونے والی میٹنگ میں صدر کی نمائندگی مشہور بیوروکریٹ روئیداد خان نے کی۔  وزیراعظم کی طرف سے سرتاج عزیز اور جنرل مجید ملک شریک تھے۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جاوید اشرف قاضی اور کور کمانڈر راولپنڈی آرمی چیف کی تجاویز کے ساتھ موجود تھے۔ 
روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں اس ساری کشمکش کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ 
ان کے مطابق جنرل عبدالوحید کاکڑ نے صدر اور وزیراعظم کو بحران ٹالنے کے لیے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے پر رضامند کیا تھا۔ 

کافی کشمکش کے بعد اس وقت چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کو قائم مقام صدر بنایا گیا  (فوٹو: فلکر)

اٹھارہ جولائی کی رات ایوان صدر میں ایک ساتھ حلف برداری کی دو تقاریب کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ایک نگران وزیراعظم کی اور دوسرے قائم مقام صدر کے لیے۔ 
اس دور کے چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد قائم مقام  صدر کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے تھے مگر نگران وزیراعظم کا نام ابھی بھی صیغہ راز میں تھا۔ 
ایک روز قبل جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تحلیل کے فارمولے پر اتفاق رائے ہو گیا تو اچانک غلام اسحاق خان بولے ’نگران وزیراعظم کون ہو گا؟‘ 

نگران وزیراعظم کو کہاں سے ڈھونڈا گیا؟ 

جس پر جاوید اشرف قاضی نے جواب دیا ’معین قریشی ہوں گے مگر ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ انہیں کیسے تلاش کیا جائے۔‘ 
اگلے ماہ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد ممکنہ نگران وزیراعظم کے نام اور پس منظر کے بارے میں بحث اور پیشنگوئیاں عروج پر تھیں ۔ 
کچھ حلقے دگرگوں معاشی حالات کے سبب اقتصادی انتظام کے کسی ماہر ٹیکنوکریٹ کی تعیناتی کے امکانات ظاہر کر رہے ہیں۔ 
نگران وزیراعظم بننے والے معین قریشی ماضی میں ورلڈ بینک کے ساتھ بطور سینیئر وائس پریزیڈنٹ وابستہ رہ چکے تھے۔ 
مسلم لیگ کی سابقہ حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے سیاست دان سرتاج عزیز بھی اس میٹنگ میں موجود تھے ۔انہوں نے جاوید اشرف قاضی کو جواب دیا: ’میں انہیں تلاش کر سکتا ہوں۔‘
عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سرتاج عزیز سے دیرینہ آشنائی معین قریشی کے وزیراعظم بننے کا باعث تھی ۔مگر سرتاج عزیز اپنی کتاب "Between Dreames and Realities" میں اس تاثر کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ 
ان کے مطابق معین قریشی کا نام میاں نواز شریف نے واشنگٹن میں موجود اپنے ایک قریبی دوست کے مشورے پر تجویز کیا تھا۔
سرتاج عزیز پاکستان کے نگران وزیراعظم کی تلاش کے بارے میں اس لیے پر اعتماد تھے کہ ایک ہفتہ قبل کراچی سے چین روانگی سے قبل معین قریشی نے ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے اپنے دوست کی تلاش شروع کی تو  پتہ چلا کہ وہ دو دن قبل چین سے بینکاک جا چکے ہیں ۔پریشانی کے عالم میں انہوں نے بینکاک میں پاکستانی سفارت خانے کی مدد سے انہیں ڈھونڈنا چاہا۔ 
سرتاج عزیز کی تشویش اس وقت بڑھ گئی جب انہیں سفارت خانے نے بتایا کہ وہ تھوڑی دیر قبل سنگاپور روانہ ہو چکے ہیں۔ 
متعدد رابطوں اور کوششوں کے بعد بالاخر معین قریشی کو تلاش کر لیا گیا۔

معین قریشی کا نام میاں نواز شریف نے واشنگٹن میں موجود اپنے ایک قریبی دوست کے مشورے پر تجویز کیا تھا (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

’سرتاج تمہیں معلوم ہے کہ میں کینسر کا مریض ہوں اور انے والے دس دنوں میں کیموتھراپی کے اگلے مرحلے کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے والا ہوں۔ صحت کی ایسی صورتحال میں یہ پیشکش کیسے سے قبول کر سکتا ہوں‘
سرتاج عزیز کو معین قریشی سے نگران وزیراعظم کی پیشکش پر یہ جواب ملا ۔انہوں نے فوراً نواز شریف اور جنرل جاوید اشرف قاضی کو معین قریشی کے انکار سے مطلع کیا۔
اگلے روز 18 جولائی کو سرتاج عزیز کی آنکھ  سنگاپور سے آنے والی کال پر کھلی۔ انہیں خوش گوار حیرت ہوئی جب معین قریشی نے یہ منصب سنبھالنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ آج شام چھ بجے ان کی حلف برداری کی تقریب ہے اور انہیں سنگاپور سے اسلام اباد پہنچانے کا انتظام بھی کریں۔ 
سرتاج عزیز نے جاوید اشرف قاضی کو نگران وزیراعظم کی دستیابی کی خوشخبری سنانے کے لیے فون کیا تو ان کا جواب ایک نئی تشویش لیے ہوئے تھا۔ 
ان کی پریشانی کی وجہ جسٹس ریٹائرڈ حلیم تھے ۔ بے نظیر بھٹو نے جسٹس حلیم اور جسٹس عبدالقادر شیخ کے نام نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کیے تھے۔ اسی طرح اس دور میں کچھ حلقوں کی طرف سے صاحبزادہ یعقوب علی خان اور جنرل کے ایم عارف کا نام بھی لیا جا رہا تھا۔ 
جاوید اشرف قاضی نے معین قریشی کے انکار کے بعد جسٹس حلیم کو حلف کے لیے تیار رہنے کا پیغام دینے کو اپنا بندہ ان کی طرف بھیج دیا تھا۔ 
اب پریشانی کے عالم میں سرتاج عزیز نے فورا نواز شریف کو اطلاع دی کہ وہ معین قریشی کے نام پر اصرار کریں ۔اس لیے کہ معین قریشی کے انکار کو اقرار میں بدلنے والے نواز شریف کے واشنگٹن والے وہی دوست تھے۔ 
میاں محمد نواز شریف کی مداخلت سے جسٹس حلیم کے بجائے ایک مرتبہ پھر معین قریشی کی حلف برداری کا اہتمام اور انتظار ہونے لگا۔
اس روز چھٹی کی وجہ سے سنگاپور سے چارٹرڈ فلائٹ دستیاب نہ تھی۔ بڑی مشکل سے انہیں براستہ بینکاک ایک فلائٹ کے ذریعے کراچی پہنچایا گیا ۔جہاں سے ایک خصوصی طیارہ انہیں لے کر رات 10 بجے اسلام اباد پہنچا۔
رات گئے معین قریشی جب حلف لینے ایوان صدر پہنچے تو سوائے ایک دو کے وہاں موجود کوئی شخص ان سے آشنا نہ تھا۔

معین قریشی کون تھے؟ 

پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹر اور امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے معین قریشی 18 جولائی کی درمیانی رات ایوان  صدر سے حلف اٹھا کر باہر نکلے تو ہر کوئی ان کے بارے میں جاننے کا مشتاق تھا۔ 
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ دوسری شخصیت تھے جنہیں بیرون ملک سے بلا کر وزارتِ عظمی کا منصب سونپا گیا۔ اسے قبل امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو واشنگٹن سے لا کر ملک کا وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ معین قریشی بھی اس وقت اپنی جرمن نژاد امریکن شہری اہلیہ کے ساتھ وہیں مقیم تھے۔ 
وہ 1979 تک سینیئر وائس پریزیڈنٹ کے طور پر ورلڈ بینک سے منسلک رہے۔ آئی ایم ایف میں بھی ملازمت کا ایک طویل حصہ گزار چکے تھے۔ نگران وزیراعظم بننے سے قبل پاکستان میں ان کی خدمات کا واحد تجربہ منصوبہ بندی بورڈ کے ڈپٹی چیف کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کا تھا ۔ 
معین قریشی 80 دنوں کی نگران وزارت عظمیٰ کے بعد واپس امریکہ چلے گئے تھےجہاں 2016 میں ان کا انتقال ہوا۔ 

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں معین قریشی دوسری شخصیت تھے جنہیں بیرون ملک سے بلا کر وزارتِ عظمی کا منصب سونپا گیا (فائل فوٹو: فلکر)

اگرچہ ٹیکنوکریٹ ہونے کی وجہ سے ذاتی حیثیت میں وہ سیاسی معاملات سے دور رہے تھے مگر ان کا خاندان برصغیر میں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتا تھا۔ یوں وہ ایک سیاسی گھرانے کے غیرسیاسی فرد تھے۔ 
ان کے دادا مولوی عبدالقادر قصوری انڈین نیشنل کانگرس کے پنجاب کے صدر رہ چکے تھے ۔ان کے والد اور چچا تقسیم سے قبل اور بعد سیاست میں مصروف عمل رہے۔ 
ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں وزیر قانون رہنے والے میاں محمود علی قصوری ان کے چچا تھے۔ یوں وہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے کزن بھی تھے۔ 

عمران خان کی نگران وزیر بننے سے معذرت 

معین قریشی کی ابتدائی کابینہ چھ ارکان پر مشتمل تھی۔ جو تمام کے تمام غیرسیاسی پس منظر رکھنے والے تھے۔ ان کے نگران وزیر داخلہ کے بارے میں اعجاز الحق کے بیان سے ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ 
ان پر ضیا الحق کی موت کے بارے میں قائم کمیشن کی سربراہی کے دوران ثبوت ’ضائع‘ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ سینیٹ میں اپنی ایک تقریر میں نگران وزیر داخلہ نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ان کے رشتہ داروں کے حوالے سے نہ پہچانا جائے بلکہ ان کی انفرادی حیثیت کی بنیاد پر ان کی شناخت ہونی چاہیے۔
ماضی کی نگران کابینہ کا حصہ رہنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ فتح اللہ خان بندیال موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے والد تھے۔
کابینہ میں توسیع  کے اگلے  مرحلے میں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں کے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو نگران وزیر تجارت کے طور پر شامل کیا گیا۔

عمران خان نے معین قریشی کی جانب نے وزیر بننے کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی ۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہو کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی نگران سیٹ اپ میں وزیر بننے کی پیشکش کی گئی تھی ۔اس وقت کرکٹر کے طور پر معروف عمران خان نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے وزیراعظم معین قریشی سے ملاقات میں وزارت کے لیے اپنی نامزدگی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ان الفاظ میں معذرت کی:
’غیرسیاسی آدمی ہوں اور سازشی سیاست سے دور رہنا چاہتا ہوں۔‘

نگران وزیراعظم تنازعات کی زد میں 

معین قریشی نے پہلا غیرملکی دورہ امریکہ کا کیا۔ یہیں سے ان پر تنقید اور ان کے عزائم پر تشویش کا آغاز ہوا۔ ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے انہیں عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کا ہمدرد بنا کر پیش کیا۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان موجودہ حکومت پر’امپورٹڈ حکومت‘ کی پھبتی کستے رہے ہیں ۔ دلچسپ امر ہے کہ معین قریشی کے عالمی مالیاتی اداروں سے تعلق کی وجہ سے جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے معین قریشی کے لیے ’امپورٹڈ وزیراعظم‘ کا لفظ استعمال کیا ۔ 
آج پاکستانی کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں گرتی ہوئی قیمت حکومتی کارکردگی پر تنقید کا باعث بنتی ہے ۔معین قریشی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد روپے قدر میں کمی کی تو ایک ڈالر 30 پاکستانی روپوں کے برابر ہو گیا ۔اس کا جواز انہوں نے پیش کیا کہ اس سے ملکی دآمدات میں اضافہ ہوگا۔ یہ فیصلہ بھی ان پر تنقید کی وجہ ثابت ہوا۔ 
اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ کے بعد قوم سے خطاب میں انہوں نے مالیاتی اصلاحات کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تو ان پر کی جانے والی تنقید کی شدت میں تیزی آ گئی۔
حالیہ عرصے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سیاسی بے یقینی اور بحران کی وجہ سے خاصی کمی ہوئی ہے۔
30 برس قبل بھی اسی طرح کی صورتحال تھی۔ جنوری 1993 میں 800 ملین ڈالر کے ذخائر سیاسی بحران کی بدولت جولائی میں 132 ملین ڈالرز تک آ چکے تھے۔
معیشت کے ماہر نگران وزیراعظم نے امریکہ کے دورے کے دوران آئی ایم ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹر سے پاکستان کے لیے قرضوں کے حوالے سے ملاقات کی۔
آئی ایم ایف کے پالیسی بورڈ نے ستمبر تک پاکستان کو قرضے کی پہلی قسط  دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ اسی طرح نومبر میں نئی حکومت کو ایک ارب ڈالر کا قرض دینے کی ہامی بھی بھری۔
موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی بھی قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ ملاقات کے نتائج اور قرض کی شرائط میں بھی 30 سال قبل کی مماثلت نظر آتی ہے ۔ 
معین قریشی پر معاشی پالیسیوں کے حوالے سے تنقید تو ہو رہی تھی مگر جب بے نظیر بھٹو نے احتساب کے نام پر الیکشن ملتوی ہونے کے خدشات کا اظہار کیا تو نگران حکومت کے سیاسی ایجنڈے کے بارے میں مفروضے اور قیاس آرائیاں عام ہونے لگی۔
نگران حکومت کے سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے احتساب  کے لیے مجوزہ احتساب کمیشن کی تشکیل کی خبروں نے میں بھی معین قریشی کی سیاسی معاملات میں دلچسپی کے تأثر کو تقویت دی۔
اس پر مستزاد عبوری دور کے لیے قائم حکومت نے ریاستی ڈھانچے کی ازسرنو تشکیل کے لیے ایک اکانومی کمیشن تشکیل دے دیا جس کی رپورٹ میں وزارتوں کی تعداد کم کرنے، بیوروکریسی کے ڈھانچے میں تبدیلیوں، بیرون ملک سفارت خانوں کے سٹاف میں کمی اور قومی اداروں کی نجکاری کی تجاویز شامل تھیں۔ 
معین قریشی کے سینیٹ سے خطاب کے بعد مسلم لیگ نون کا لہجہ بھی ان کے بارے میں درشت اور شکوک و شبہات والا ہوتا چلا گیا۔ 
نگران وزیراعظم نے سینیٹ میں اپنی تقریر کے دوران نواز شریف کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کی ۔ساتھ ہی انہوں نے انتخابات کے بعد معلق پارلیمنٹ کی پیش گوئی بھی کر ڈالی۔  
معاشی اور انتظامی معاملات میں طویل منصوبہ بندی کے بعد سیاسی حالات پر تبصرے سے معین قریشی کے قریبی دوست سرتاج عزیز بھی ان پر تنقید کرنے لگے۔ 
سرتاج عزیز کے مطابق جس حکومت کا کام انتخابات کروانا تھا، اس کے سیاسی بیانات مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی کوشش لگ رہے تھے۔ 
ایک طرف ملک میں انتخابی مہم زوروں پر تھی تو دوسری طرف نگران حکومت کی طرف سے قرض نادہندگان کی فہرستوں کی اشاعت اور ان پر انتخابات میں پابندیوں کے اعلان نے خاصی ہلچل برپا کر دی۔ ساتھ ہی حکومت نے منشیات کے سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔
نگران حکومت کی طرف سے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو تحلیل کرنے کے حکم سے ان کی غیرجانب داری پر اٹھتے سوالات کی سنجیدگی اور تشویش میں اضافہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ کچھ حلقوں کو ملک میں انتخابات کا انعقاد مخدوش اور ٹیکنوکریٹ حکومت کی مدت میں اضافہ نظر آنے لگا۔ 
پاکستان کی دو بڑی اور ایک دوسرے کی حریف سیاسی جماعتوں  پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے ان خطرات اور خدشات کو بھانپتے ہوئے بروقت انتخابات کو یقینی بنانے پر زور دینا شروع کر دیا۔ 
یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو شہید نے الیکشن میں شناختی کارڈ کو لازمی قرار دینے کہ فیصلے پر اپنے اعتراضات اور قانونی چارہ جوئی سے بھی پیچھے ہٹنے کا اشارہ دے دیا۔ 
چھ اکتوبر 1993 کو قومی اسمبلی اور نو اکتوبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے الیکشن کے التوا اور ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کے بارے میں پھیلائے گئے تمام نظریات دم توڑ گئے۔ 
تین عشروں بعد بھی پاکستانی سیاست اور طاقت کے مراکز میں ماضی کی حکمت عملیوں اور بحثوں کے بقیہ نقوش کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 
پاکستان میں آنے والے دنوں میں نگران حکومت کی ہیئت، مدت اور نوعیت کیا ہو گی؟ نگران وزیراعظم کا کام معیشت کو سنبھالا دینا ہو گا یا انتخابات کا آئینی فریضہ پورا کرنا۔ 
ان سوالات کے جوابات ماضی کی صورتحال سے مماثلت رکھتے ہیں یا ان سے مختلف ہوں گے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔البتہ جوں جوں نگران حکومت کے قیام کے دن قریب آتے جا رہے ہیں صحافت اور سیاست کے اداروں اور حلقوں میں نئی بحثوں میں پرانے سوالات کی آمیزش شامل ہوتی رہے گی ۔ 

شیئر: