Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا سے سیلابی پانی میں آنے والی بارودی سرنگیں پاکستان کیلئے سردرد

پاکستان اور انڈیا دو ناراض پڑوسی ہیں، اور دونوں ملک اس ناراضی کا کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے سے شکوے شکایتیں بھی بہت ہیں مگر ناراضی کے بہانے  تلاش کرنے میں بھی دونوں ملک کبھی دیر نہیں لگاتے۔
پانی کی تقسیم کے تنازع کے حل کے لیے سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد میں 1960 میں سندھ طاس معاہدہ ہوا مگر یہ معاملہ اب بھی دونوں ملکوں کے درمیان جوں کا توں ہے جس کی گونج وقتاً فوقتاً سنائی دیتی رہتی ہے۔
مون سون کی بارشوں کے دوران جب انڈیا دریاؤں اور ندی نالوں میں اضافی پانی چھوڑتا ہے تو پاکستان میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے، اور دونوں جانب سے بیان بازی کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس سے ظاہر ہے کسی فریق کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
انڈیا کی جانب سے دریاؤں میں چھوڑے جانے والے اس پانی کے ساتھ بہت سی ایسی چیزیں بھی پاکستان میں داخل ہو جاتی ہیں جن کے باعث سرحدی دیہات میں کسی وقت بھی غیرمعمولی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے جن میں بارودی سرنگیں بھی شامل ہیں جو سرحدی دیہات کے علاوہ پاکستان حکام کے لیے بھی ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جسے فوری طور پر حل کرنا ہی دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں ہے۔

بارودی سرنگیں کہاں آتی ہیں؟

برسات کے موسم میں دریائوں اور نالہ ڈیک سمیت کئی ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوتی ہے۔
وسطی پنجاب کےضلع نارروال کی تحصیل ظفروال میں بہنے والا نالہ ڈیک اِس وقت سرحدی فورسز اور ضلعی انتظامیہ کی تمام تر توجہ کا مرکز ہے۔
ورکنگ باؤنڈری پر واقع تحصیل ظفر وال کی سرحد انڈین کشمیر سے متصل ہے۔
 

حکام کے مطابق نالہ ڈیک میں پانی کی سطح نیچے ہوتی ہے تو بارودی سرنگیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ (فوٹو: سول ڈیفینس)

ضلعی سول ڈیفنس آفیسر نارروال عاصم واہلہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ دس دنوں میں نالہ ڈیک میں آنے والی نو بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنایا جا چکا ہے۔ ‘
 انہوں نے مزید بتایا کہ ’انڈیا نے اگرچہ یہ بارودی سرنگیں اپنے علاقے میں نصب کی ہوتی ہیں مگر جیسے ہی برسات کے موسم میں سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو یہ بارودی سرنگیں پانی کے بہاؤ کے ساتھ پاکستان میں داخل ہو جاتی ہیں۔‘
عاصم واہلہ کے مطابق، ’نالہ ڈیک میں پانی کی سطح نیچے ہوتی ہے تو یہ بارودی سرنگیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں جنہیں ہماری متحرک اور پیشہ ورانہ طور پر تربیت یافتہ ٹیمیں فی الفور ناکارہ بنا دیتی ہیں۔‘

بارودی سرنگوں نے جب آفت برپا کی

گذشتہ برس تحصیل ظفر وال میں ہی ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جب ایسی ہی ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے چار بچے جان سے گئے تھے۔

عاصم واہلہ نے بتایا کہ گذشتہ 10 دنوں میں نالہ ڈیک میں آنے والی نو بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنایا جا چکا ہے۔ (فوٹو: سول ڈیفینس)

نارروال کے مقامی صحافی عامر ارشاد اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہیں، ’گذشتہ برس برسات کے موسم کے ختم ہونے پر بچے نالہ ڈیک میں ریت سے کھیل رہے تھے، جنہیں اچانک کوئی کھلونا نما چیز دکھائی دی۔ بچوں کے پاس ایک کلہاڑی تھی جس سے انہوں نے اس چیز پر ضرب لگائی۔ اس وقت زور دار دھماکہ ہوا اور تمام بچوں کے اعضا فضا میں بکھر گئے اور علاقے کی فضا سوگوار ہو گئی۔‘
عامر ارشاد بتاتے ہیں کہ ’میں گذشتہ کئی برسوں سے یہ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ہر سال برسات کے موسم میں بارودی سرنگیں مقامی آبادی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن جاتی ہیں ۔‘

حکومت کیا کر رہی ہے؟

پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ادارے پنجاب پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان مظہر حسین نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ انڈیا سے آنے والے پانی میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور آ سکتا ہے، اس لیے ہماری ٹیمیں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہیں اور نگرانی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔‘

سول ڈیفینس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سات سے آٹھ دیہات ایسے ہیں جو انڈیا سے آنے والی بارودی سرنگوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 

زمینی حقائق مگر ترجمان پی ڈی ایم اے کے بیان سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
ضلعی سول ڈیفنس آفیسر عاصم واہلہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سات سے آٹھ دیہات ایسے ہیں جو انڈیا سے آنے والی بارودی سرنگوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ہم ان علاقوں میں برسات کے موسم میں باقاعدہ آگاہی مہم چلاتے ہیں اور لوگوں کو احتیاط کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جب کہ نالہ ڈیک کی طرف جانے پر پابندی بھی عائد کی جاتی ہے۔ ہم اپنی آگہی مہم میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی بھی چیز نظر آئے تو فوری طور پر محکمہ کو آگاہ کیا جائے اور لوگ ایسا کرتے بھی ہیں۔‘
عاصم واہلہ نے بتایا،’انڈیا سے آنے والی بارودی سرنگیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو آمدورفت روکتی ہیں اور دوسری ٹینک شکن ہوتی ہیں جب کہ مارٹر گولے اور دستی بم بھی سیلابی پانی کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔‘

شیئر: