Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹنڈو سومرو جسے مکینوں نے ترقی یافتہ ’ماڈل ویلیج‘ بنا دیا

پاکستان کے صوبہ سندھ کے گاؤں ٹنڈو سومرو سے شاید زیادہ لوگ واقف نہ ہوں لیکن یہ صوبے کے علاوہ پورے ملک کے لیے ایک مثال ہے کہ جب کمیونٹی میں اتحاد ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔
مقامی لوگوں نے گاؤں کو صاف ستھرا رکھنے کے علاوہ اس کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی اٹھا رکھی ہے جب کہ گاؤں کے گرد باؤنڈری وال کی تعمیر بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔
سندھ کے شہر حیدرآباد سے تقریباً 50 کلومیٹر دور یہ گاؤں ’ماڈل ویلیج‘ کے طور پر اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہ جدید سہولیات سے آراستہ ہے جہاں ترقیاتی کاموں کا آغاز 1984 میں ’گوٹھ سدھار سنگت‘ کے نام سے شروع کیا گیا۔
اس گاؤں کے مقامی رہائشیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس گاؤں کو ترقی کی راہ پہ ڈالا اور تنظیم سازی کر کے اس کو علاقے کے دیگر دیہات کے مقابلے میں جدید اور بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا۔

’گاؤں کا سارا نظام مقامی عوامی نمائندے سنبھالتے ہیں‘

اس گاؤں کا انتظام سنبھالنے والی کمیٹی کے رکن شفاعت اور ضمیر خان نظامانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’1988 میں جب سندھ میں جرائم اور ڈکیتی کی وارداتیں بہت بڑھ گئیں تو اس وقت گاؤں کے معززین نے اس کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور گاؤں کے اطراف میں چار دیواری کی تعمیر کا آغاز کیا۔‘
بعد ازاں ٹنڈو سومرو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (TSDO) کے نام سے تنظیم بنا کر اس کی تعمیر و ترقی کے لیے عملی اقدامات اپنی مدد اپ کے تحت شروع کیے گئے۔
ضمیر خان نظامانی نے بتایا کہ ’اس گاؤں کی آبادی تقریباً آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور گاؤں کا سارا نظام یہاں کے عوامی نمائندے سنبھالتے ہیں۔‘
’وہ سہولیات جو اسے باقی دیہات سے جدید بناتی ہیں ان میں یہاں کا جدید ڈرینیج سسٹم، گرلز سکول کمپیوٹر لیب کے علاوہ گاؤں کے اطراف میں مضبوط حفاظتی باؤنڈری وال کی تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ صفائی کا بہترین نظام اور میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے فلٹر پلانٹ بھی نصب کیا گیا ہے۔‘ 

اس گاؤں کا نام اصل میں سومرو خان نظامانی کے نام پہ رکھا گیا تھا جو کہ نظامانی قبیلے کے بڑے نظام خان کے بیٹے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

 انہوں نے مزید بتایا، ’گاؤں کے ان تمام معاملات کو منتظم کرنے کے لیے بھی تنظیم قائم ہے جب کہ دو اور ٹیمیں بھی علاقے میں سرگرم ہیں جن میں سے ایک ٹیم فلاح و بہبود کے کام سر انجام دے رہی ہے تو دوسری ٹیم سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔‘
اس گاؤں میں زراعت کا نظام انتہائی منظم ہے، یہاں کی نمایاں فصلوں میں کیلا اور دوسرا سندھ کا مشہور سندھڑی آم ہے۔
اس گاؤں کے بارے میں ایک بہت دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گاؤں کا نام تو ٹنڈو سومرو ہے مگر یہاں سومرو برادری کا کوئی ایک بھی بندہ نہیں رہتا۔

’لوگ حیرت زدہ ہو کر یہاں سے واپس لوٹتے ہیں‘

اس گاؤں کا نام اصل میں سومرو خان نظامانی کے نام پہ رکھا گیا تھا جو کہ نظامانی قبیلے کے بڑے نظام خان کے بیٹے ہیں۔ نظام خان کے چار بیٹے تھے جن میں دو کو زیادہ جانا جاتا ہے۔ ایک سومرو خان نظامانی جنہوں نے ٹنڈو سومرو آباد کیا اور دوسرے بیٹے قیصر نظامانی ،جنہوں نے ٹنڈو قیصر کے نام سے گاؤں آباد کیا۔
اس گاؤں کے رہنے والے لوگ مالی طور پر بھی خاصے خوشحال ہیں۔ یہاں پہ اینٹوں سے بنے مکانات کے علاوہ بنگلے بھی قائم ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ گاؤں واقعی ماڈل ویلیج ہے۔
لوگ دور دور سے اس گاؤں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور حیرت زدہ ہو کر واپس جاتے ہیں۔

اس گاؤں کے سکولوں میں 12 سے 1500 تک طالب علم پڑھتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ضمیر خان نظامانی نے بات کرتے ہوئے بتایا ’اس گاؤں میں کوئی بھی سومرو نہیں ہے بلکہ نظامانی اور دوسری کمیونٹی کے لوگ بستے ہیں۔ ہماری کمیٹی مل جل کر کام کرتی ہے۔ ہم نے تعلیم کے فروغ کے حوالے سے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اپنے گاؤں میں تعلیم کے معیار کو شہر کی تعلیم کے برابر کریں۔ ہمارے گاؤں کے اندر کافی تعداد میں لڑکیاں ہیں جن کے لیے پرائمری اور ہائی سکول الگ الگ ہیں، اور ان سکولوں میں 12 سے 1500 تک طالب علم پڑھتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا ’کچھ طالب علم ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کے لیے جائیں تو ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں۔ ہم نے اس مرتبہ یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ڈرین کے نظام کو ایسا بنایا جائے کہ بارش ہو تو کیچڑ جمع نہ ہو اور پانی کی نکاسی آسانی سے عمل میں آ جائے۔‘
ضمیر خان نظامانی کے مطابق ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اسے سکیورٹی فراہم کی جائے اور وہ اپنے گھر میں محفوظ ہو تو ہماری جو باؤنڈری وال آپ نے دیکھی ہے۔ یہ تو ابھی 2009 میں بنی ہے لیکن اس سے پہلے ہمارے گاؤں کے اندر چوکیداری کا ایک مربوط نظام تھا جو ابھی سے نہیں بلکہ برسوں سے ہے۔
انہوں نے کہا ’گاؤں میں ایک ہسپتال بھی ہے جو خواتین کی زچگی کے معاملات کے علاوہ دیگر بیماروں کے علاج کے لیے ہمہ وقت سرگرمِ عمل رہتا ہے۔ ہم اپنے گاؤں کے اندر ہر چیز اپنی مدد اپ کے تحت کر رہے ہیں۔ ہم حکومت سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے گاؤں کی صفائی کے لیے مستقل بندوبست کرے تاکہ ہم اپنے گاؤں کو کسی بھی شہر سے بھی بہتر بنا سکیں۔‘

ٹنڈو سومرو کا میانی کی جنگ سے تعلق

ضمیر خان نظامانی نے کہا ’ہمارےعلاقے کا کیلا یا آم ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جس سے اچھا منافع حاصل ہوتا ہے اور یہ صرف اس علاقے کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ ہمارے گاؤں میں تمام بنیادی سہولتیں موجود ہیں جن میں لائٹ، گیس اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی شامل ہے۔‘

گاؤں میں ترقیاتی کاموں کا آغاز 1984 میں ’گوٹھ سدھار سنگت‘ کے نام سے شروع کیا گیا (فوٹو: اردو نیوز)

ان کے مطابق میانی کی جنگ کے شہدا بھی اسی گاؤں کے رہنے والے تھے جو میانی کی جنگ میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔
گاؤں میں ایک سوا سو سال پرانی مسجد بھی ہے اور مسجد میں لگی ہوئی لکڑی پر کیے گئے کام سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حال ہی میں اس پر کام ہوا ہو لیکن دراصل لوگوں نے خود ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے۔

شیئر: