Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب مارشل لاء لگتے ہیں تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایکٹ کے سیکشن تین کے تحت کیا کمیٹی طے کرے گی کہ ازخود نوٹس لینا ہے یا نہیں؟ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’جب مارشل لاء لگتے ہیں پھر سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، جب پارلیمنٹ کوئی قانون بناتا ہے تو سپریم کورٹ آجاتے ہیں اور جب مارشل لاء لگتے ہیں تو کیوں سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرتے۔‘
منگل کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہاں مارشل لا نہیں ہے، آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ کیا ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟ پارلیمنٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار بڑھا دیا گیا، کیا آپ کا موقف یہ ہے اپیل کا حق نہ ہو بس سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ حتمی ہو۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’جنگ کا لفظ بہت معنی خیز ہے، کچھ کہتے ہیں کہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے اور کچھ طبقے کہتے ہیں پارلیمنٹ کا نہیں ہے، میں نے سوچا میں خود اس کیس کو نا سنوں، سپریم کورٹ اگر ایک ہی کیس سننے کو بیٹھ گئی تو دیگر کیسز متاثر ہوں گے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بارے پارلیمنٹ آمنے سامنے ہے۔‘
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ پوری قوم کا کیس ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ تاثر نا دیں آپ پوری قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔‘ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایک سابق وزیراعظم کی خواہش تھی کہ چیف جسٹس کو پارلیمان طلب کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’عدالتی فورم کو سیاسی مباحث کے لیے استعمال نہ کریں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے، اب سوال یہ ہے کہ قانون درست ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم کیس میں قرار دیا کہ عدالت آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے، اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون آئینی ترمیم سے بنتا تو پھر سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے سکتی تھی۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا عوامی فلاح کے لیے چیف جسٹس پاکستان کے لامحدود اختیار کو پارلیمنٹ ریگولیٹ نہیں کرسکتا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون نہیں بنا سکتی، جس پر جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کو کیوں قانون سازی کا اختیار نہیں۔ ایڈوکیٹ عرفان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس قانون سازی پر اختلاف تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون انصاف کی رسائی کا ہے، پارلیمنٹ کیوں قانون سازی نہیں کرسکتا۔
وقفے کے بعد کی سماعت
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔ وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں دراصل میں آئین میں ترمیم کر دی ہے، آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہوگا تو نوٹس ہو سکے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں جس میں آئین کے پہلے حصے میں لکھے بنیادی حقوق آتے ہیں۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کے لیے قانون سازی نہیں ہو سکتی؟ درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایکٹ کے سیکشن تین کے تحت کیا کمیٹی طے کرے گی کہ ازخود نوٹس لینا ہے یا نہیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا کمیٹی کے ذریعے اختیارات ریگولیٹ کرنا انصاف کی فراہمی کو متاثر نہیں کرتا؟ (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا کمیٹی کے ذریعے اختیارات ریگولیٹ کرنا انصاف کی فراہمی کو متاثر نہیں کرتا۔
ایڈوکیٹ حسن عرفان نے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم چیف جسٹس اور ججز سب کا موقف یہی کہتا ہے کہ وہ آئین کا دفاع کریں گے، پارلیمنٹ اور ججز دونوں کے لیے آئین کے دفاع کا ذکر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ انصاف تک رسائی کے لیے بنیادی شرط آزاد عدلیہ بھی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر قانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہے تو فل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہوگا؟ کیا فل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں پارلیمنٹ کی قدر کرنی چاہیے، ہمیں پاکستان میں آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے وکلاء سے سوال کیا کہ آج کیس کی سماعت کو ملتوی کر کے کسی اور دن رکھ لیتے ہیں، کیس کو کس دن سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، اٹارنی جنرل صاحب بتائیں کس دن سماعت کے لیے مقرر کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ پیر کو کیس سماعت کے لیے مقرر کر لیں، جس پر چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیر کو پورا دن ایک ہی کیس سنیں گے، مسلم لیگ ن، ق لیگ، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف کے وکلا کو بھی پیر کے دن سنیں گے، اگر کوئی فریق تحریری جواب جمع کروانا چاہے تو کروا سکتا ہے، کوشش کریں تمام فریقین کے وکلاء اپنے دلائل کو محدود رکھیں، پیر کے دن رات بارہ بجے تک بھی بیٹھنا پڑا تو کیس پر سماعت مکمل کریں گے۔

شیئر: