Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں ن لیگ کا شور اور پیپلز پارٹی کی خاموشی، وجہ کیا ہے؟

جو سیاسی بہار جون کے مہینے میں پیپلز پارٹی کی جانب سے برپا کی گئی تھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہی (فوٹو: اے ایف پی)
جون کے مہینے میں پیپلز پارٹی نے لاہور کو سہہ رنگی جھنڈوں سے کچھ اس طرح سجایا ہوا تھا کہ گویا لاہور میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کا جنم ہوا ہو۔ سڑکوں ، چوراہوں اور فلائی اوورز پر پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔
اُس وقت بلاول بھٹو کے ترجمان ذوالفقار علی بدر نے اُردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کا جنم لاہور میں ہوا تھا اس لیے یہاں  پیپلز پارٹی کا متحرک ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔‘
کچھ دنوں تک لاہور کی سڑکوں پر سہہ رنگی جھنڈے  لہراتے رہے تاہم بعد میں دیگر سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں نےان کی جگہ لے لی اور دیکھتے ہی دیکھتے ن لیگ سمیت استحکام پاکستان پارٹی کے جھنڈے بھی ہر جگہ نمایاں دکھائی دیے۔
آج بھی  کنال روڈ اور مین بولیوارڈ روڈ سے لے کر لاہور کی دیگر شاہراہوں پر استحکام پاکستان  پارٹی کے جھنڈے نظر آرہے ہیں جبکہ انتہائی کم مقامات پر ن لیگ کے جھنڈے بھی موجود ہیں۔ لیکن جو سیاسی بہار جون کے مہینے میں پیپلز پارٹی کی جانب سے برپا کی گئی تھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔
’مخصوص قوّت نے پیپلز پارٹی کی جھنڈا مہم کو نقصان پہنچایا‘
ایک حوالے سے لاہور میں پیپلز پارٹی کی خاموشی کو پاکستان مسلم لیگ ن کی حالیہ سرگرمیوں کا نتیجہ بھی بتایا جا رہا ہے تاہم  ذوالفقار علی بدر اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ایک مخصوص قوّت نے پیپلز پارٹی کی ’جھنڈا مہم‘ کو نقصان پہنچایا ہے۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں ذوالفقار علی بدر نے کہا کہ ’جب پاکستان پیپلز پارٹی کے جھنڈے لاہور کی سڑکوں سے اُتارے گئے تو کہیں نہ کہیں اس کے پیچھے ن لیگ خود سرگرم تھی۔‘ 
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر سید حسن مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ضلعی انتظامیہ کے سامنے بارہا یہ معاملہ رکھا کہ سڑکوں پر آویزاں ہمارے جھنڈے اور بینرز ہٹا دیے گئے ہیں۔‘
ذوالفقار علی بدر اسے سیاسی طور پر امتیازی سلوک قرار دیتے ہیں اور اسے لاہور سے نکل کر قومی سطح پر ایک بڑا مسئلہ تصور کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’آج بھی حکومت تبدیل ہونے کے باوجود پورے ملک میں ترقیاتی کام چل رہے ہیں، ن لیگ کے رہنماء مختلف پراجیکٹس کا افتتاح کر رہے ہیں لیکن سندھ کے فنڈز کو لاک کیا گیا ہے۔‘

کچھ دن سہہ رنگی جھنڈے  لہراتے رہے لیکن بعد میں دیگر سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں نے جگہ لے لی (فوٹو: اُردو نیوز)

کیا پیپلز پارٹی کی خاموشی تنظیمی ناکامی ہے؟
ذوالفقار علی بدر کے مطابق نگراں سیٹ اپ میں ن لیگ کے حمایت یافتہ لوگ موجود ہیں اس لیے ن لیگ کے خیال میں وہ الیکشن اور دیگر چیزوں کو مینیج کر کے کامیاب ہو جائے گی۔
’جب حکومت میں بیٹھے لوگ جھنڈے لگنے نہ دیں اور انتظامیہ سب کچھ اُتار دے تو اس میں خاموش پیغام ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کے بقول ’اب چونکہ مسلم لیگ ن ایک نئے محاذ کی تیاری کر رہی ہے تو لاہور میں ان کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور جو دعوے پیپلز پارٹی کے دوبارہ عروج سے متعلق کیے جا رہے تھے وہ دَم توڑ رہے ہیں کیونکہ ان دنوں پنجاب کے اکثر علاقوں بشمول لاہور میں  پیپلز پارٹی نے سیاسی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔‘
اس خاموشی کو ذوالفقار علی بدر اپنی تنظیمی ناکامی سے جوڑتے ہیں۔
’پیپلز پارٹی کے چاہنے والے ہر گھر میں موجود ہیں لیکن ہماری طرف سے غلطی یہ ہوئی ہے کہ ہماری تنظیموں نے لوگوں سے اُس طرح رابطہ بحال نہیں رکھا۔‘
پیپلز پارٹی کسی اشارے کی منتظر
تاہم پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر سید حسن مرتضیٰ اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ وہ کسی اشارے کے منتظر ہیں۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے ہر طرح کی سرگرمی کی جا رہی ہے۔
’آصف علی زرداری تین دن گزار کے گئے ہیں۔ ان سے لوگوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا ہے، کور کمیٹی کی میٹنگ بھی دو دنوں تک لاہور میں ہی چلتی رہی۔ بلاول بھٹو کی سالگرہ بھی منائی گئی ہے۔‘
پارٹی کی اندرونی سرگرمیوں کو عوامی سطح پر لانے کے لیے اس وقت پیپلز پارٹی  کسی اشارے کی منتظر دکھائی دے رہی ہے۔ سید حسن مرتضیٰ اس اشارے کو الیکشن  کے بروقت انعقاد سے جوڑتے ہیں۔
’پیپلز پارٹی کا مطالبہ یہی ہے کہ انتخابات فی الفور کروائے جائیں۔ اس حوالے سے ہمیں کوئی واضح عندیہ ملے تو ہماری سرگرمیاں سب کو نظر آجائیں گی اور ہماری انتخابی مہم بھی تب ہی شروع ہو سکے گی۔‘

اندرونی سرگرمیوں کو عوامی سطح پر لانے کے لیے پیپلز پارٹی کسی اشارے کی منتظر دکھائی دے رہی ہے (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

سید حسن مرتضیٰ کی گفتگو سے تاثر مل رہا تھا کہ وہ ظاہری طور پر تو تنظیمی کمزوریوں کو لاہور میں پیپلز پارٹی کی خاموشی کی وجہ نہیں بتا رہے تاہم وہ ان وجوہات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تنظیم سازی سے متعلق ہم تیاری کر رہے ہیں، ایک ہفتے کے اندر ہمیں غیر فعال کارکنان کے نام مل جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہم آنے والے انتخابات کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ کہاں کمزوری ہے اور کہاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کی کمزور تنظیمی ساخت پارٹی کی لاپرواہی؟
پاکستان میں انتخابات پر کڑی نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کمزور تنظیمی ساخت کو پاکستان پیپلز پارٹی کی لاپرواہی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’تنظیمی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نے پیپلز پارٹی پنجاب کو لاوارث چھوڑ دیا۔ ق لیگ اور ن لیگ کے ساتھ ان کی مفاہمت کی پالیسی رہی جبکہ اس میں پیپلز پارٹی کا کارکن اپوزیشن نہیں کر سکا اس لیے یہ جگہ تحریک انصاف نے لے لی۔‘
ماجد نظامی ایک وسیع تناظر میں سیاسی نقشہ کھینچتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے آنے سے لاہور میں تین طرفہ سیاسی مقابلے کا آغاز ہوا اور اس دوران تحریک انصاف اور ن لیگ تو مدمقابل رہے لیکن پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر منجمد ہو کر رہ گئی۔ 
’پیپلز پارٹی صرف ایک بار دوسرے نمبر پر آئی تھی جب 2021 کے ضمنی انتخابات میں این اے 133 سے شائستہ پرویز ملک کامیاب ہوئی تھیں کیونکہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کا امیدوار نہیں تھا۔‘
ماجد نظامی کے اس تبصرے کے برعکس سید حسن مرتضیٰ سمجھتے ہیں کہ ’ن لیگ ایک صوبائی جماعت ہے اور لاہور ان کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں ن لیگ تعداد کے اعتبار سے ہم  سے زیادہ ہے۔‘

پیپلز پارٹی کے ترجمان کے مطابق پارٹی کی خاموشی جلد سیاسی شور میں بدلے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

ن لیگ کی حالیہ سرگرمیاں کارکنان کو تحریک دینے کا بہانہ؟
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر سید حسن مرتضیٰ ن لیگ کی حالیہ سرگرمیوں کو پیپلز پارٹی کی سیاسی مہم پر اثر انداز ہونے والے عناصر میں شمار نہیں کرتے۔
’مسلم لیگ ن کی حالیہ سرگرمیاں صرف کارکنان کو تحریک دینے کا ایک بہانہ ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ آنے والے انتخابات میں اگر کچھ برا ہوتا ہے تو ان کے پاس بنا بنایا بہانا ہوگا کہ نواز شریف آ گئے تھے اور ن لیگ مضبوط ہو گئی تھی۔‘
ذوالفقار علی بدر بھی اس رائے کے حق میں دکھائی دیے اور نواز شریف کو محض ن لیگ کے بچاؤ کا ایک ذریعہ قرار دیا۔
’ہمارے اوپر ان کے آنے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ان کی پارٹی اس وقت بہت مشکل میں ہے اور پارٹی کو لگتا ہے کہ جب تک نواز شریف ان کو بچانے نہیں آئیں گے تب تک ان کو موجودہ سیاسی منظرنامے میں اپنی بقا نظر نہیں آرہی۔‘
پیپلز پارٹی کے ووٹس جماعت اسلامی جتنے؟
حسن مرتضیٰ بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے لاہور میں موجودہ خاموشی بہت جلد سیاسی شور میں تبدیل ہوجائے گی۔ ’جلد ہی بلاول بھٹو اور آصف زرداری دوبارہ لاہور آئیں گے اور ڈویژنل ہیڈکوارٹرز تک جائیں گے اور وہی سرگرمیاں سڑکوں پر ایک بار پھر نظر آئیں گی۔‘
تاہم صحافی ماجد نظامی اس کے برخلاف یہ سمجھتے ہیں کہ ’موجودہ سیاسی تناظر میں پیپلز پارٹی کو لاہور میں عروج حاصل کرنے کے لیے اچھا خاصا زور لگانا پڑے گا کیونکہ انہیں پنجاب اور بالخصوص لاہور میں زوال پذیر ہوتے ہوتے 10 سال لگے ہیں، دس سال کا نقصان چھ یا پانچ مہینوں میں پورا کرنا خام خیالی ہے۔‘
ان کے مطابق حالیہ دنوں میں پارٹی میں لوگوں کو شامل کروا کر یہ تاثر تو دیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی میدان میں آگئی ہے ’لیکن درحقیقت لاہور میں ان کے ووٹ جماعت اسلامی جتنے ہی رہ گئے ہیں۔‘

شیئر: