Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران حکومت میں نظرانداز لیکن مشکل وقت میں ڈٹ جانے والے پارٹی رہنما کون ہیں؟

تحریک انصاف کی چند کارکن خواتین بھی رہا ہوتے ہی متعدد بار گرفتار ہو چکی ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر مشکل وقت آنا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہاں کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں، رہنماؤں اور کارکنوں کی قید وبند کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔
یہاں تک کہ سیاسی رہنماوں کو جلاوطنی اور پھانسیوں تک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جنرل ایوب کے مارشل لا کے خلاف آواز اٹھانے والے سیاسی رہنما ہوں یا ضیا الحق کی آمریت میں کوڑے کھانے والے کارکن ہوں، لوگ انہیں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر مقام دیتے ہیں۔
پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اگرچہ نواز شریف خود جلا وطن ہو گئے لیکن ان کی جماعت کے جو لوگ مشرف دور میں ان کے ساتھ کھڑے رہے، انہیں سیاسی حلقوں میں عزت و احترام سے نوازا جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی کو بعد ازاں پارٹی بدلنے کے باوجود آج بھی ن لیگ کے کارکن مزاحمت کا استعارہ سمجھتے اور احترام دیتے ہیں۔  
پاکستان تحریک انصاف کے عروج میں 2011 سے 2022 تک سینکڑوں رہنما دوسری جماعتوں سے اس پارٹی میں شامل ہوئے اور 2018 میں ملنے والے اقتدار میں ساجھے دار بن گئے۔
اس دوران یہ بات سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں کہی جاتی رہی کہ تحریک انصاف نے اپنے حقیقی کارکنان کو نظرانداز کر کے باہر سے شامل ہونے والوں کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا ہے۔
ایسے ناموں میں فواد چودھری، فردوس عاشق اعوان، فیاض چوہان، غلام سرور خان اور دیگر شامل تھے۔  

کیا نظرانداز کیے گئے رہنما ڈٹ گئے؟

حالات نے پلٹا کھایا، تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ عمران خان نے پارلیمان سے باہر رہ کر سیاسی مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ پھر صوبائی حکومتیں بھی ختم ہو گئیں۔ اس دوران سیاسی رہنماؤں پر مقدمات بھی بننے لگے۔
عمران خان کی گرفتاری کے ساتھ ہی نو مئی کا واقعہ پیش آ گیا۔ جس کے بعد تحریک انصاف کے خلاف نہ صرف کریک ڈاون شروع ہوا بلکہ پارٹی کے زوال کا آغاز ہو گیا۔  
جو لوگ ایک دن پہلے عمران خان کے ساتھ جینے مرنے کی وعدے اور دعوے کر رہے تھے، وہ ایک ایک کر کے ڈھیر ہوتے گئے۔ پھر وہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے تحریک انصاف اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے پائے گئے۔
جو شیریں مزاری کی طرح آسانی سے نہیں مانے وہ مزید مشکلیں دیکھ کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے۔  
اس صورت حال میں وہ لوگ جنہیں عمران خان کے دورِ حکومت میں سرے سے نظرانداز کیا گیا وہ خلاف توقع ثابت قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب کبھی ان کی عدالت میں پیشی ہوتی ہے اور ان کی کوئی تصویر سامنے آتی ہے تو سیاسی مخالفین بھی ان کی استقامت کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔  
عمر سرفراز چیمہ، عمران خان کے اولین ساتھیوں میں سے ہیں۔ وہ اس وقت تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے جب ان کے اور عمران خان کے علاوہ ٹی وی پر تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔

 سرفراز چیمہ کو 10 مئی کو گرفتار کیا گیا اور وہ تاحال زِیرحراست ہیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر، پی ٹی آئی)

تحریک انصاف کے چار سالہ دور حکومت میں وہ کہاں تھے کوئی نہیں جانتا۔ لیکن جونہی 2022 میں گورنر پنجاب چوہدری سرور اور عمران خان کے درمیان اختلافات ہوئے اور عمران خان کی حکومت چند دن کی مہمان رہ گئی تھی، انہیں گورنر پنجاب لگا دیا گیا۔
9 مئی کے بعد انہیں 10 مئی کو گرفتار کیا گیا اور وہ تاحال زیرِحراست ہیں۔ اگلے ماہ یعنی جون میں ان کی اہلیہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ اس عرصے میں عمر چیمہ کا حلیہ بدل چکا ہے۔ وہ کلین شیو ہوا کرتے تھے، اب داڑھی مونچھیں بڑھی ہوئی ہیں۔ لیکن واقفان حال بتاتے ہیں کہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ 
اٹک سے سابق رکن قومی اسمبلی میجر طاہر صادق تحریک انصاف کی حکومت کے پورے دور میں عمران خان سے اختلاف کرتے رہے۔ ہر موقعے پر انہوں نے پارٹی کے برعکس موقف اپنایا اور پارٹی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حکومت سے نکلنے اور نو مئی کے واقعات کے بعد ان کے گھر پر متعدد مرتبہ چھاپے مارے گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ان کی صاحبزادی ایمان طاہر سوشل میڈیا پر عمران خان کے حق میں مسلسل سرگرم رہتی ہیں۔
مری سے 1988 سے ناقابل شکست رہنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو شکست سے دوچار کرنے والے صداقت علی عباسی کو کوشش کے باوجود عمران خان کی حکومت میں پذیرائی نہ مل سکی۔ لیکن حکومت کے خاتمے سے اب تک وہ اپنی جماعت اور عمران خان کے نظریے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔  
عالیہ حمزہ قومی اسمبلی میں خواتین ارکان اسمبلی میں سب سے زیادہ متحرک رکن تھیں لیکن انہیں پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے سے آگے وزیر مملکت تک نہیں بنایا گیا لیکن وہ 9 مئی سے اب تک لاہور جیل میں قید ہیں۔ جب بھی کیمرے کے سامنے آتی ہیں عمران خان کو یقین دلاتی ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان نہیں کریں گی۔ 

فردوس شمیم نقوی  بھی گرفتار ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک پارٹی یا سیاست چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا (فوٹو: سکرین گریب)

کراچی سے تعلق رکھنے والے فردوس شمیم نقوی کی جگہ پر بھی پارٹی کے دیگر لوگوں کو نوازا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے ان کے مقامی قیادت سے اختلافات کی خبریں بھی زبان زد عام رہتی تھیں۔ علی زیدی، عمران اسماعیل، فیصل واؤڈا سمیت متعدد رہنماؤں کی جانب سے پارٹی چھوڑ جانے کے باوجود وہ جیل میں ہیں اور اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔  
ان رہنماؤں کے علاوہ صنم جاوید، طیبہ راجا، خدیجہ شاہ سمیت متعدد خواتین کارکنان جو عمران خان کی حکومت شروع ہونے سے ختم ہونے تک گمنامی میں تھیں لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد متحرک ہوئیں اور اب جیلوں میں ثابت قدمی کے ساتھ مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔  

عمران خان اور عثمان بزدار کابینہ کے ڈٹ جانے والے ارکان  

عمران خان پر اپنے دور اقتدار میں جس کام ے لیے سب سے زیادہ دباؤ ڈالا گیا وہ عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے تھا۔ لیکن عمران خان نے انہیں وسیم اکرم پلس کا خطاب دیتے ہوئے آخری لمحے تک ان پر اعتماد کیا۔  
مشکل پڑنے پر جہاں عثمان بزدار نے کوئٹہ میں روپوشی ختم کرتے ہوئے سیاست اور عمران خان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ وہیں ان کی کابینہ کے ارکان محمود الرشید، یاسمین راشد، میاں اسلم اور دیگر قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
سینیٹر اعجاز چودھری بھی ان لوگوں کے ساتھ جیل میں ہیں۔ اعجاز چودھری، محمودالرشید اور یاسمین راشد متعدد مرتبہ اپنے ثابت قدم رہنے کے عزم کا اظہار کرتے دیکھے گئے ہیں۔
علی محمد خان، شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار ایسے پارٹی رہنما ہیں جنہیں ہر مرتبہ رہائی کے بعد پھر گرفتار کیا جاتا رہا لیکن انہوں نے سیاست سے باز نہ آنے کے عزم کا اظہار کیا۔

اعجاز چودھری، محمودالرشید اور یاسمین راشد متعدد مرتبہ اپنے ثابت قدم رہنے کے عزم کا اظہار کرتے دیکھے گئے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ان کے علاوہ شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی کے بارے میں بھی گمان تھا کہ وہ پارٹی چھوڑ جائیں گے لیکن خلاف توقع وہ بھی نہ صرف جیل میں ہیں بلکہ اپنی جماعت کے ساتھ ڈٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

عمران خان کے ساتھی جو منظر سے غائب ہیں

نو مئی کے واقعات کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بالخصوص تحریک انصاف کے جن رہنماؤں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سرفہرست مراد سعید، علی امین گنڈاپور اور حماد اظہر شامل ہیں۔  
ان کی گرفتاری کے لیے مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن وہ تاحال روپوش ہیں۔ تاہم وہ سوشل میڈیا پر متحرک دکھائی دیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً عوام سے مخاطب ہو کر اپنی جماعت کا نکتہ نظر بھی بیان کرتے رہتے ہیں۔

شیئر: