Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راولپنڈی میں جرگے کے فیصلے پر بیوی کا قتل، ’گھر سے بھاگنے کی ایف آئی آر درج کرائی تھی‘

مقامی افراد کی جانب سے پولیس کو اطلاع دی گئی کہ لڑکی کو قتل کیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
رواں ہفتے جس وقت پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں جرگے کے فیصلے پر مرد و عورت کے قتل کی خبریں چل رہی تھیں ٹھیک اُسی وقت راولپنڈی کے تھانہ پیرودھائی میں پولیس اہلکار ایک ایسی ایف آئی آر پر سر جوڑے بیٹھے کہ جو ایک خاوند کی جانب سے اپنی بیوی کی گمشدگی کی نہیں بلکہ رات ایک بجے پوری تیاری کے ساتھ اچانک گھر سے نکل جانے کے بعد درج کرائی گئی تھی۔
پولیس کو ان مندرجات پر شک تھا کہ کیسے ایک لڑکی جس کی عمر محض 19 برس ہے اور اس کی شادی کو بھی چھ ماہ ہی گزرے ہوں وہ رات ایک بجے زیور اور کپڑے لے کر گھر سے نکلنے کی ہمت کر سکتی ہے؟
پولیس ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ مقامی افراد کی جانب سے اطلاع پہنچائی گئی کہ لڑکی گھر سے بھاگی نہیں بلکہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اطلاع دینے والوں نے بتایا کہ ابھی تو اس کی شادی کی مہندی کا رنگ بھی نہ اترا تھا کہ خاندان نے جرگہ بلا کر اس کے قتل کا فیصلہ کر لیا۔ سدرہ عرب گل پر الزام تھا کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود عثمان نامی نوجوان سے نہ صرف میل جول رکھتی تھی بلکہ اس سے نکاح بھی کر لیا تھا۔
اطلاع دینے والوں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر پولیس کو بتایا کہ اس الزام نے غیرت کے نام پر ایک اور المناک قتل کی بنیاد رکھی۔ گھر کے صحن میں ہونے والے جرگے نے خاندان کی ’عزت‘ خراب کرنے پر لڑکی کی جان لینے کا فیصلہ سنایا۔ جس پر عمل کرتے ہوئے صحن میں 19 سالہ دلہن کو بے دردی سے قتل کر کے خاموشی سے دفنا دیا گیا، اور پھر اس قتل کو چھپانے کے لیے جھوٹ پر مبنی ایف آئی آر درج کروائی گئی۔
جس کے بعد مقتولہ کے شوہر ضیا الرحمان نے 21 جولائی کو تھانہ پیرودھائی میں ایک درخواست دی جس میں کہا گیا کہ اُس کی بیوی سدرہ گھر سے زیورات اور نقدی لے کر غائب ہو گئی ہے اور بعد میں اسے پتہ چلا کہ اُس نے عثمان نامی شخص سے نکاح کر لیا ہے۔
ضیا الرحمان نے عثمان پر الزام لگایا کہ وہ جانتے بوجھتے ایک شادی شدہ عورت کے ساتھ تعلق میں رہا۔ پولیس نے اس اطلاع پر اغوا اور دوبارہ نکاح کا مقدمہ درج کر لیا۔ لیکن جب تفتیش شروع ہوئی تو کہانی یکسر بدل گئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق اس مقدمے کے اندراج کے پیچھے ایک بھیانک جرم چھپا ہوا تھا۔ دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ سدرہ کو درحقیقت پہلے ہی قتل کیا جا چکا ہے اور اس قتل کا فیصلہ ایک خاندانی جرگے میں ہوا تھا۔ پولیس کو اطلاع ملی کہ مقتولہ کی لاش کو قریبی قبرستان میں رات کے اندھیرے میں دفنا دیا گیا ہے۔ قبر کے نشانات بھی مٹا دیے گئے تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو۔ گورکن اور قبرستان کے سیکریٹری کو حراست میں لے کر جب تفتیش کی گئی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ لاش کو دباؤ کے تحت دفن کیا گیا اور اس کی شناخت چھپانے کے لیے قبر پر مٹی ہموار کی گئی۔
پولیس نے شواہد اکٹھے کر کے لاش کی برآمدگی کے لیے عدالت سے اجازت حاصل کر لی ہے، جبکہ گورکن سمیت کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اب ایف آئی آر میں قتل، غیرت کے نام پر قتل، شواہد مٹانے اور لاش چھپانے کی دفعات کا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ مرکزی ملزم ضیا الرحمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر راولپنڈی پولیس نے ایف ۤآئی ار کے اندراج اور بعد ازاں تفتیش میں ہونے والے انکشافات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ قانون کی روشنی میں مقدمے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے جرگے کے فیصلے کی روشنی میں لڑکی کے قتل کی شدید مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ روش ملک کے لیے زہر قاتل ہے۔ ’خواتین کو روایات کی بھینٹ چڑھانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ریاستی ادارے ایسے عناصر کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائیاں کرتے ہوئے اقدامات کریں تاکہ اس سلسلے کو روکا جا سکے۔‘

شیئر: