Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈ کپ میں شکست، کیا بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانا حل ہے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم گروپ اسٹیج کے 9 میچز میں سے صرف 4 میچ ہی جیت سکی. (فوٹو: ای ایف پی)
مختصر عرصے میں کرکٹ میں بڑا نام بنانے والے بابر اعظم ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔
انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں پاکستان کرکٹ ٹیم پہلے مرحلے کے نو میچز میں سے صرف چار میچ ہی جیت سکی اور آخری میچ میں انگلینڈ کے ہاتھوں بڑے مارجن سے شکست کے بعد پاکستان سیمی فائنل مرحلے سے بھی باہر ہوگئی۔
پاکستانی ٹیم کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ورلڈ کپ کے دوران ہی بابر اعظم کی کپتانی پر تنقید شروع ہو گئی تھی اور ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے بعد ان کے مخالف حلقوں کی جانب سے انہیں کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
تاہم دوسری طرف پاکستان کرکٹ کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بابر اعظم کو کپتان برقرار رکھنے کا حامی ہے اور شکست کے لیے دیگر وجوہات کو بھی ذمہ دار سمجھتا ہے۔
عوامل جو پاکستان ٹیم کی کارکردگی پر اثر انداز ہوئے
ورلڈ کپ کے آغاز سے کچھ ہی عرصہ قبل پاکستان کرکٹ بورڈ میں بڑی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ پہلے چیئرمین کو تبدیل کیا گیا اور نجم سیٹھی کی جگہ زکا اشرف کو مینیجمنٹ کمیٹی کا سربراہ لگایا گیا، پھر چیف سلیکٹر اور مینیجمنٹ سٹاف میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں۔
یہاں تک کہ کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ روانگی تک کھلاڑیوں کے سینٹرل کانٹریکٹس کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا۔ ان سارے عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی خراب کارگردگی کی ایک بڑی وجہ کرکٹ بورڈ کی پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔
ماہرین کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں پی سی بی چیئرمین کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو مسلم لیگ ن نے ان کے تعینات کیے گئے چیئرمین رمیض راجا کو ہٹا کر نجم سیٹھی کو تعینات کیا۔ جس کے بعد مبینہ طور پر پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے زکا اشرف کو چیئرمین پی سی بی بنوانے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کیا۔
یوں ایک مختصر عرصے میں تین مختلف سربراہان کی تعیناتی کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی پالیسیاں بھی بڑے پیمانے پر تبدیل ہوتی رہیں۔
ٹی 20 میچوں کی بھرمار
بورڈ کی پالیسیوں میں عدم تسلسل کے اثرات ملک کے ڈومیسٹک کرکٹ سٹرکچر میں دکھائی دیتے رہے ہیں۔ قومی ٹیم کا حصہ بننے والے بیشتر کرکٹرز نے سالانہ بنیادوں پر ایک روزہ اور پانچ روزہ کرکٹ بہت کم کھیلے ہیں اور ٹی 20 کرکٹ کو اپنی ترجیحات میں جگہ دیتے رہے ہیں۔ اس عمل کے نتائج ہمیں کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں نظر آئے۔
کچھ تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی شکست کی وجہ کرکٹ بورڈ کے غلط فیصلوں اور بابر اعظم کی کمزور کپتانی کے علاوہ وہ کھلاڑی ہیں جن سے کافی امیدیں تھیں لیکن انہوں نے متوقع کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بابر اعظم کو کپتان برقرار رکھنے کا حامی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ورلڈ کپ کے دوران پی سی بی کا کردار
ورلڈ کپ کے موقع پر سینٹرل کانٹریکٹس کا تنازع کھڑا ہونے کے علاوہ پی سی بی کے کردار پر اس حوالے سے بھی تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے مشکل وقت میں ٹیم کو سپورٹ نہیں کیا۔ جب ٹیم کو شکست ہو رہی تھی تو مینیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ زکا اشرف نے ٹیم کی حمایت کی بجائے ملبہ یہ کہہ کر کپتان اور چیف سلیکٹر پر ڈال دیا کہ انہیں ٹیم سلیکشن کی آزادی تھی۔
علاوہ ازیں ورلڈ کپ کے دوران انظمام الحق کے خلاف تحقیقات اور زکا اشرف کی تعیناتی کی توسیع کے معاملات نے بھی پاکستان کرکٹ کو سکینڈلائز کیا۔
آگے کیا کرنا چاہیئے 
ماہرین کے مطابق بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانا یا نہ ہٹانا ایک پہلو ہے اور اس کا فیصلہ ان کی کارکردگی کے ہر ایک پہلو کو مکمل طور پر جانچنے کے بعد کرنا چاہیے۔ لیکن حکام اگر کرکٹ کی بہتری میں سنجیدہ ہیں تو کرکٹ بورڈ سے سیاست کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی کرکٹ کے مکمل ڈھانچے کو بہتر بنانا ضروری ہے اور ہر اس شعبے میں ہنگامی تبدیلیاں لائی جانی چاہییں۔ جو خرابی کی ذمہ دار ہیں۔

شیئر: