Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ حکومت کی سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیل

سندھ حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔
جمعرات کو سندھ حکومت کی جانب سے دائر اپیل میں عدالت عظمٰی کے لارجر بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
دوسری جانب شہدا فورم بلوچستان نے بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے دائر اپیل میں موقف اپنایا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے۔
’سپریم کورٹ نے قانون اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، ملزمان نے خود درخواست دی کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو۔‘
سندھ حکومت نے اپیل پر فیصلے تک سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی بھی استدعا کر دی ہے۔
درخواست میں سندھ حکومت نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔
شہدا فورم بلوچستان کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ آئین اور قانون کی روح کے خلاف ہے۔
’فوجی عدالتوں کو بحال کیا جائے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد شہدا کے لواحقین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔‘

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار

خیال رہے 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کا 6 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کر دیا تھا جس میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی2 کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کا فیصلہ کیا تھا۔
فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے سنایا گیا تھا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

شیئر: