Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ابھی تک بڑے پیمانے پر کشیدگی کیوں نہیں ہوئی؟

حماس کے حملے کے ایک دن بعد حزب اللہ نے اسرائیلی فوجیوں پر حملوں کا آغاز کیا تھا (فوٹو:عرب نیوز)
لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی تنازع میں اضافے کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ غزہ کی جنگ اب بھی مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سنیچر کو اسرائیل نے مبینہ طور پر سرحد سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی لبنان میں ایک ایلومینیم فیکٹری کو نشانہ بنایا۔ دوسری جانب حزب اللہ نے ایک اسرائیلی ہرمیس 450 ڈرون کو مار گرانے اور پانچ دیگر حملے کرنے کا دعویٰ کیا۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینیئر فیلو فراس مکسد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اب یہ بالکل واضح ہے کہ حزب اللہ اور ایران دونوں کی ترجیح ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ براہِ راست تصادم سے گریز کریں۔ وہ اس کے بجائے ایسا انتظام کر رہے ہیں جسے ’گرے زون وارفیئر‘ کہا جا سکتا ہے جو نہ تو مکمل جنگ بندی ہے نہ ہی مکمل جنگ۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ حالات اور غزہ کی صورتحال کے لحاظ سے اسے بڑھانے یا کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم یہ مکمل جنگ نہیں ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ ایران کی واحد سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے جو اس نے اپنی سرحدوں سے باہر کی ہے۔‘
حماس کی جانب سے اسرائیل کے قصبوں پر حملے کے ایک دن بعد آٹھ اکتوبر کو حزب اللہ نے اسرائیلی فوجیوں پر حملوں کا آغاز کر دیا تھا۔
اسرائیل نے 2006 میں حزب اللہ کے ساتھ اُس وقت جنگ لڑی تھی جب گروپ کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار چھاپے کے دوران دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین یہ جنگ پانچ ہفتوں تک جاری رہی تھی۔
اس تنازعے میں ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار 200 لبنانی اور 157 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر فوجی شامل تھے جبکہ 45 لاکھ لبنانی شہری بے گھر ہوئے اور لبنان میں سول انفراسٹرکچر کو دو ارب 80 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 جس کا مقصد 2006 کے تنازعے کو حل کرنا ہے، اسرائیل کو لبنان میں فوجی آپریشن کرنے سے روکتا ہے تاہم اسرائیل نے بارہا حزب اللہ پر جنوبی لبنان میں ہتھیار سمگل کرکے قرارداد کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ ’تمام آپشن کھلے ہیں‘ تاہم انہوں نے جنگ کا اعلان نہیں کیا (فوٹو: اے ایف پی)

فراس مکسد نے کہا کہ ’اگر اسرائیل حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو حزب اللہ ایرانی حکومت اور اس کے جوہری پروگرام کے لیے دفاع کی پہلی لائن ہے اور وہ حماس کو بچانے کے لیے اسے ضائع نہیں کرے گا۔‘
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ ’تمام آپشن کھلے ہیں‘ تاہم انہوں نے جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ فراس مکسد سمجھتے ہیں کہ اس (اعلان) سے متعلقہ فریقوں کی طرف سے علاقائی کشیدگی سے بچنے کے لیے واضح ترجیح کی نشاندہی ہوتی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک لبنانی سیاسی تجزیہ کار نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’امریکی، ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے جنگ نہیں چاہتے خاص طور پر دوبارہ انتخابات کے سال کے دوران۔ خلیجی ریاستوں کی توجہ اقتصادی ترقی اور تیل کی قیمتوں پر ہے اور اس لیے وہ (جنگ) نہیں چاہتے۔ نہ ایران اور نہ ہی اس کے پراکسیز۔‘
اس تاثر کو تقویت دیتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہ نے کئی بار عوامی سطح پر کہا ہے کہ ایران نہیں چاہتا کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ پھیلے۔
عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینیئر فیلو علی الفونح نے ای میل کے ذریعے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ایران نے 7 اکتوبر کو اپنے بیشتر مقاصد حاصل کر لیے جیسے کہ اسرائیل -سعودی سفارتی تعلقات میں خلل ڈالنا اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے قصے کہانیوں کو غلط ثابت کرنا۔‘

شیئر: