اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل منظور کرتے ہوئے سزا کالعدم قرار دے کر انہیں باعزت بری کردیا ہے۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نواز شریف کی تمام سزائیں ختم ہو گئی ہیں۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی اپیل پر آخری سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔
دوران سماعت نیب پراسکیوٹر کی جانب سے ایک بار پھر کیس واپس ٹرائل کورٹ (احتساب عدالت) بھیجنے کی استدعا کی گئی جسے مسترد کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
انتخابات آٹھ دس دن آگے پیچھے ہوسکتے ہیں: آصف زرداری
Node ID: 818876
-
عمران خان یا نواز شریف، گیم کہاں تک چلے گی؟ اجمل جامی کا کالم
Node ID: 818881
-
بھٹو صدارتی ریفرنس، عدالت کے باہر ’تین بڑوں‘ کا پروٹوکول
Node ID: 819056
عدالت نے دونوں طرف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نواز شریف کی سزا کے خلاف فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنادیا گیا۔ عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو دی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔
24 دسمبر 2018 کو احتساب عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ دیا تھا اور ساتھ ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
اس سے قبل ہائی کورٹ نے نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی بری کر دیا تھا۔
عدالتی فیصلوں کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہو چکی ہے اور وہ انتخاب لڑنے کے اہل ہو چکے ہیں۔
کیا نواز شریف الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہوگئے؟
فیصلے کے بعد اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’جس طرح سے آج نیب کے ثبوتوں کا پوسٹ مارٹم ہوا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات صرف اس لیے بنائے گئے تھے کہ انھیں سیاست سے باہر کیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ نواز شریف کو انصاف ملنے میں تاخیر ہوئی لیکن آج نواز شریف ان تمام مقدمات میں سرخرو ہوگئے ہیں اور ان کی نااہلی بھی ختم ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملاً ختم دیا گیا ہے۔
’اس حوالے سے آپ نے گذشتہ روز ججز کے ریمارکس بھی سنے ہوں گے۔ یہ بھی اچھا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا ہے اور الیکشن شیڈول آنے تک اس پر صورت حال بالکل کلیئر ہو جائے گی لیکن ہمیں یقین ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے قانون ک فوقیت ملے گی۔‘
اس حوالے سے نواز شریف کے وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ’اب نواز شریف کے الیکشن لڑنے کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اول تو نواز شریف کو ٹرائل سے پہلے سزا سنائی تھی جو کہ دنیا کے کسی قانون کے مطابق درست نہیں تھی۔ دوسرا سپریم کورٹ کے حکم پر نیب عدالتوں نے جو سزائیں سنائی تھیں وہ بھی قانونی طور پر غلط ثابت ہو چکی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ سپریم کورٹ نے بھی درست سزا نہیں سنائی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ قرار دے دیا ہے کہ جس جرم کی سزا میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا اس میں نااہلی پانچ سال ہوگی تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔‘
دوسری جانب ماہر قانون اکرام چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ہائی کورٹ سے تمام مقدمات میں بریت کے باوجود نواز شریف کی تاحیات نااہلی فلحال برقرار ہے۔
’سپریم کورٹ نے اس حوالے سے نوٹس لیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ قرار دے دے کہ پارلیمنٹ کا قانون درست ہے اور وہی لاگو ہوگا تو نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہوسکے گی۔ بصورت دیگر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘
