Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تمام سیاسی جماعتوں سے ’آزاد‘ کامیاب امیدوار کون ہیں؟

اب تک چار آزاد امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) سے اپنی وابستگی کا اظہار کردیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے 12 ہویں عام انتخابات جہاں دیگر بہت سارے حوالوں سے حیران کن نتائج کے حامل ہیں وہیں یہ آزاد امیدواروں کی تعداد، پارٹی وابستگی اور اُن کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی بہت سارا ابہام اور الجھاؤ رکھتے ہیں۔ 
اتوار کی دوپہر تک غیر حتمی  اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق آزاد امیدوار ابھی تک قومی اسمبلی میں عددی طور پر اکثریت رکھتے ہیں۔
شاید یہ پہلی بار ہے کہ آزاد امیدواروں کی بھی دو اقسام بیان کی جا رہی ہیں۔
ایک وہ جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انتخابی نشان سے محرومی کے بعد اس پارٹی سے تعلق اور حمایت کی وجہ سے جیتے۔
دوسرے وہ جنہیں نہ تو  پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی اور نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت کا انتخابی نشان میسر تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’ان کی جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد 170 ہے۔‘
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے حلقے 34 آزاد امیدواروں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کے بقول ’اُن کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔‘
ایسے میں ہم اب تک کے غیر حتمی نتائج کے تفصیلی جائزے سے آزاد امیدواروں کی گُتھی سُلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
تمام جماعتوں سے آزاد امیدوار کتنے ہیں؟
قومی اسمبلی کی 265 نشستوں میں  سے آٹھ انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں امیدوار تمام جماعتوں سے آزاد ہو کر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ 
ان آٹھ حلقوں میں سے سات کے مکمل نتائج سامنے آچکے ہیں۔ خوشاب کے حلقہ این اے 88 کا نتیجہ الیکشن کمیشن نے روک دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود فارم 47 کے مطابق یہاں 26 پولنگ سٹیشنز پر 15 فروری کو دوبارہ پولنگ ہوگی۔
اس حلقے کے اب تک کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق جس امیدوار کو برتری حاصل ہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔
محمد معظم شیر کلو کو اپنے حریف پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار محمد اکرم خان پر 7 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔
اس حلقے کی اہم بات یہ ہے کہ یہاں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کوئی امیدوار مقابلے میں نہیں تھا۔

پی ٹی آئی کے رہنما گوہر علی نے دعویٰ کیا ہے کہ ’ان کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد 170 ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

باقی سات امیدواروں میں سے کون کس سیاسی پس منظر کا حامل ہے؟ اس کی جیت کے پسِ پردہ محرکات کیا ہیں اور ان کا سیاسی مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
ان سارے پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ اِن آزاد امیدواروں کے حوالے سے اُلجھاؤ کو دُور کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔
رشید اکبر خان نوانی: این اے 92 بھکر 
رشید اکبر خان نوانی بھکر دو سے ایک لاکھ 42 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے روایتی حریف افضل خان ڈھانڈلہ کو 38 ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔
یہ دونوں اس علاقے کے بااثر الیکٹ ایبلز سمجھے جاتے ہیں۔گذشتہ انتخابات میں افضل خان تحریک انصاف کے جبکہ رشید اکبر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ یہ معرکہ افضل ڈھانڈلا کے ہاتھ رہا تھا۔
رشید اکبر خان نوانی 1993 میں آزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی بن کر قومی سیاست کا حصہ بنے تھے۔
سنہ 2013 میں رشید اکبر اور اُن کے بھائی سعید اکبر خان نوانی کو لاہور ہائی کورٹ نے اثاثہ جات چھپانے کے کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔ یوں ان کے قریبی حریف افضل خان ڈھانڈلا یہاں سے آزاد حیثیت سے ممبر اسمبلی منتخب ہو گئے تھے۔
تاہم 2018 کے الیکشن سے قبل سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں انہیں انتخابات کے لیے اہل قرار دے دیا گیا۔

رشید اکبر خان نوانی بھکر دو سے ایک لاکھ 42 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں (فائل فوٹو: قومی اسمبلی)

موجودہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اس حلقے سے کسی کو اپنا امیدوار نہیں بنایا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں سے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے دونوں سیاسی رہنماؤں کا ماضی میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رہ چکا ہے۔
سنہ 2008 کے انتخابات میں افضل ڈھانڈلا مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر یہاں سے رشید اکبر نوانی سے ہار گئے تھے۔آزاد حیثیت میں جیتنے کے بعد رشید اکبر نوانی نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
این اے 92 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ظہیر عباس نقوی 38 ہزار ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔
طویل سیاسی تجربہ رکھنے والے رشید اکبر نوانی کی اگلی سیاسی منزل کا اس کا ابھی تک اظہار نہیں ہو سکا ہے مگر بعض  سیاسی مبصرین کے مطابق ’اُن کے لیے پارٹیوں کے برعکس پاور کی زیادہ اہمیت ہے۔‘
رضا حیات ہراج: این اے 144 خانیوال 
اس حلقے سے جیتنے والے آزاد امیدوار رضا حیات ہراج کی ماضی کی سیاست یا تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے تھی یا وہ ہر الیکشن میں ایک نئی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے سامنے آتے رہے۔
موجودہ انتخابات میں رضا حیات ہراج نے اپنے پرانے سیاسی حریف خاندان کی اگلی نسل کے نمائندے کو شکست سے دوچار کیا۔
اُن سے ہارنے والے امیدوار سید عابد حسین امام، سابق سپیکر قومی اسمبلی و وفاقی وزیر سید فخر امام اور سابق وفاقی وزیر اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین کے صاحبزادے ہیں۔

رضا حیات ہراج نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ایکس اکاؤنٹ)

اس بار این اے 144 میں مسلم لیگ (ن) کے نمائندے سید مختار حسین تیسرے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ محمد احسن چوتھے نمبر پر رہے۔
رضا حیات ہراج 2013 میں آزاد حیثیت سے جیت کر پی ٹی آئی کا حصہ بننے والے سید فخر امام سے تین ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔
ایک الیکٹیبل کا سیاسی پسِ منظر رکھنے والے رضا حیات ہراج نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1997 میں آزاد ممبر قومی اسمبلی بن کر کیا۔
سنہ 2002 میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے فلور تک پہنچے۔ اس انتخاب میں ان کے رشتے کے  بھائی حامد یار ہراج آزاد حیثیت سے خانیوال کے ایک دوسرے حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے ۔
سنہ 2008 میں وہ مسلم لیگ ق کے نمائندے کے طور پر قومی اسمبلی کا حصہ بنے۔
مسلم لیگ (ن) 2013 میں ان کی سیاسی منزل بنی جب وہ آزاد امیدوار کے طور پر جیت کر اس میں شامل ہوئے۔ 
سیاسی منظر نامے پر موجود تینوں جماعتوں سے رضا حیات ہراج کی رفاقت رہ چکی ہے۔ اس لیے اُن کی اگلی سیاسی منزل کے بارے میں شاید آسانی سے پیش گوئی کرنا ممکن نہ ہو۔
ظہور حسین قریشی: این اے 146 خانیوال تین 
اس حلقے سے فاتح ٹھہرنے والے ظہور حسین قریشی بھی بااثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کے بھانجے ہیں اور اُنہی کے ساتھ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

 شاہ محمود قریشی کے بھانجے ظہور حسین قریشی کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے (فائل فوٹو: ظہور قریشی ایکس اکاؤنٹ)

گذشتہ انتخابات میں ظہور حسین قریشی اسی حلقے سے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
اس بار پی ٹی آئی نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا اور اُن کے بجائے عمران شاہ کھگہ کو اپنا امیدوار بنایا جو صرف 15 ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔
اس بار ظہور حسین قریشی کا مقابلہ یہاں کے ایک اور الیکٹیبل پیر اسلم بودلہ سے تھا جنہوں نے 2013 میں ن لیگ کے ٹکٹ پر تحریک انصاف کے امیدوار ظہور حسین قریشی کو شکست سے دوچار کیا تھا۔
اس الیکشن میں دونوں روایتی حریفوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔جیتنے والے امیدوار نے ایک لاکھ 12 ہزار جبکہ دوسرے نمبر پر رہنے والے پیر اسلم بودلہ نے ایک لاکھ چار ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ظہور حسین قریشی کا اس وقت جُھکاؤ اپنی سابق جماعت کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے۔ 
میاں خان بُگٹی: این اے 253 ڈیرہ بگٹی 
صوبہ بلوچستان کے اس حلقے سے قدرے غیر معروف میاں خان بگٹی دو بڑے سیاسی خاندانوں کے بااثر امیدواروں کو شکست دے کر آزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی کی شہرت کی ایک وجہ نواب اکبر خان بگٹی کا خاندان بھی ہے۔اس بار یہاں سے نواب اکبر بگٹی کے پوتے، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ اور  پی ڈی ایم کی سابق حکومت کے وزیر شاہ زین بُگٹی الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔

مقامی نیوز چینلز کے مطابق میاں خان بگٹی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: میاں بگٹی فیس بُک)

اُن کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے میر دوستان خان ڈومکی کا تعلق بلوچستان کے ایک اور بااثر سیاسی خانوادے سے ہے۔ وہ اکبر خان بُگٹی کے نواسے بھی ہیں۔
نسبتاً کم معروف میاں خان بُگٹی نے اپنے دو طاقتور حریفوں کو شکست دے کر سیاسی اپ سیٹ بھی کر دیا ہے۔
آزاد امیدوار میاں خان بُگٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار دوسرے جبکہ شاہ زین بگٹی تیسرے نمبر پر رہے۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صدام ترین چوتھی پوزیشن حاصل کر سکے۔
مقامی نیوز چینلز کے مطابق میاں خان بگٹی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
راجا خرم نواز: این اے 48 اسلام آباد 
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ’انار‘ کے نشان پر آزاد حیثیت سے جیتنے والے راجا خرم نواز سیاست میں قدرے نووارد ہیں۔
انہوں نے 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔اس وقت اُن کے پاس تحریک انصاف کا ٹکٹ تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد خرم نواز نے اپنے اپ کو پارٹی کی سرگرمیوں سے مکمل الگ تھلگ کر لیا تھا۔
اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاجی جلسوں اور نو مئی کے پُرتشدد احتجاج میں ان کا  نام کہیں بھی سامنے نہیں آیا۔

راجا خرم نواز نے اپنی نئی سیاسی منزل مسلم لیگ (ن) کو قرار دینے کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: خرم نواز فیس بُک)

راجا خرم نواز نے اپنے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سید علی بخاری ایڈووکیٹ کو شکست دی۔
اسی حلقے سے تیسرے نمبر پر آنے والے آزاد امیدوار مصطفی نواز کھوکھر نے ایک ٹویٹ میں دوسرے نمبر پر رہنے والے محمد علی بخاری کے ساتھ دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اُن کی حمایت کا اعلان کیا۔
مسلم لیگ (ن) نے راجا خرم نواز کے مقابلے میں اس حلقے سے کسی امیدوار کو نامزد نہیں کیا۔اسی وجہ سے انہوں نے اپنی نئی سیاسی منزل مسلم لیگ (ن) کو قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔
بیرسٹر عقیل ملک: این اے 54 راولپنڈی 
نوجوان اور سیاست میں نووارد عقیل ملک نے راولپنڈی کے ایک حلقے سے دو آزمودہ اور جیت کا طویل ریکارڈ رکھنے والے سیاست دانوں کو پچھاڑ کر سیاسی مبصرین کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔
راولپنڈی کے اسی حلقے سے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کے امیدوار کے طور پر موجود تھے۔
اول الذکر نے 19 ہزار کے قریب جبکہ ثانی الذکر نے 16 ہزار 800 ووٹ حاصل کیے۔
عقیل ملک نے 85 ہزار کے قریب ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ان کے مدمقابل تحریک انصاف کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار عذرا مسعود نے 73 ہزار ووٹ حاصل کیے۔

بیرسٹر عقیل ملک نے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ بننے کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: بیرسٹر عقیل فیس بُک)

برسٹر عقیل ملک کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہی ہے۔اس حلقے میں ن لیگ کی مقامی تنظیم نے غلام سرور کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے پر احتجاجاً عقیل ملک کی پشت پناہی۔اس کی وجوہات میں غلام سرور کا ماضی میں نواز شریف کے بارے میں سخت کلمات کا استعمال کرنا بتایا جاتا ہے۔
بیرسٹر عقیل ملک نے اپنی ہی جماعت مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ بننے کا اعلان کیا ہے۔ 
محمد ادریس: این اے 12 کوہستان 
خیبر پختون خوا کے گلگت سے ملحق ضلع کوہستان سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے محمد ادریس سیاسی منظرنامے پر گمنام رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے حریف جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان کے صلاح الدین کو تقریباً چار ہزار ووٹوں سے شکست دی۔یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار تاج محمد ساتویں پوزیشن حاصل کر سکے۔
گذشتہ الیکشن میں یہاں سے ایم ایم اے کے امیدوار محمد آفرین خان کامیاب ہوئے تھا۔محمد ادریس نے ابھی تک کسی سیاسی جماعت کے حوالے سے اپنی پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔
شمشیر علی مزاری: این اے 189 راجن پور 
پنجاب سے قومی اسمبلی کے آخری حلقے سے بھی ایک آزاد امیدوار شمشیر علی مزاری نے 83 ہزار کے قریب ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ان کے مدمقابل مسلم لیگ نون کے سردار ریاض محمود کو 72 ہزار ووٹ ملے ہیں۔
تیسرے نمبر پر رہنے والے تحریک انصاف کے محمود خان مزاری کو 10 ہزار کے قریب ووٹ مل سکے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق شمشیر علی مزاری نے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: شمشیر مزاری فیس بُک)

تیسرے نمبر پر رہنے والے تحریک انصاف کے محمود خان مزاری کو 10 ہزار کے قریب ووٹ مل سکے۔
شمشیر مزاری نے بھی اپنے مدمقابل ایک بااثر سیاسی خاندان کے دو امیدواروں کو شکست دی ہے۔
ریاض محمود مزاری گذشتہ الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر یہاں سے قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔2022  میں پارٹی سے بغاوت کی اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے تھے۔
اسی حلقے سے تیسرے نمبر پر رہنے والے پی ٹی آئی کے زاہد محمود مزاری ریاض محمود مزاری کے بھائی بھی ہیں۔
ان دونوں کے والد سردار شیر باز مزاری کئی بار ممبر قومی اسمبلی اور 1993 میں پاکستان کے نگراں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق شمشیر علی مزاری نے بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔
ازاد امیدوار کس پارٹی میں جائیں گے؟
ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق چار آزاد امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) سے اپنی وابستگی کا اظہار کردیا ہے۔
اگر ان آٹھ انتخابی حلقوں کے نتائج کو مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی موجودگی اور کارکردگی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو شاید یہ سمجھنا مشکل نہ رہے کہ ان کی اکثریت کی منزل مسلم لیگ (ن) ہو سکتی ہے۔
ان حلقوں میں سے چار جگہوں پر مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا تھا۔تین حلقوں سے جیتنے والے امیدواروں کا براہ راست مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے ہوا۔
پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار آٹھ میں سے دو حلقوں میں چوتھے نمبر پر رہے جبکہ دو حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ایک حلقے میں ان کا نمبر تیسرا جبکہ ایک حلقے میں پانچواں اور ایک میں ساتواں تھا۔
پاکستانی سیاست کے بازار میں سیاسی گاہک اسی دُکان کی طرف جاتے ہیں جہاں کے نرخ بالا ہوں۔ حقیقی طور پر آزاد امیدواروں میں سے شاید ہی کوئی خسارے کا سودا کرنے کا سوچے۔

شیئر: