Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کے بیٹوں کے خلاف کون سے مقدمات درج ہیں؟

نواز شریف کے وطن واپس لوٹنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی ایک احتساب عدالت نے جمعرات کو قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کے دونوں بیٹوں، حسن نواز اور حسین نواز کے وارنٹ گرفتاری عارضی طور پر معطل کر دیے ہیں۔
عدالت نے 14 مارچ تک وارنٹ معطل کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کو عدالت کے روبرو سرنڈر کرنے کا حکم دیا ہے۔
حسن نواز اور حسین نواز کو نیب نے سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں شریف خاندان کے مبینہ طور پر برطانیہ کے علاقے ایون فیلڈ میں واقع اپارٹمنٹس کی خریداری کی منی ٹریل نہ دینے پر منی لانڈرنگ کے الزام میں ایون فیلڈ ریفرنس میں نامزد کر دیا تھا۔
اس ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
اس سے قبل سنہ 2017 میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا، جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔
مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر چھ ماہ میں فیصلہ سنانے کی بھی ہدایت کی تھی۔
عدالتی حکم کے مطابق نیب نے نواز شریف اور ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کو ایون فیلڈ، العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز میں نامزد کیا تھا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے چھ جولائی 2018 کو سزا سنا دی۔ نواز شریف کو 10 برس، مریم نواز کو سات برس جبکہ کیپٹن صفدر کو ایک برس کی سزا سنائی گئی۔
11 جولائی کو اسی عدالت نے حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے دیا، بعدازاں ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے تھے۔

11 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے دیا۔ (فوٹو: ایکس)

خیال رہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے ٹرائل کا سامنا کیا تاہم نواز شریف کے دونوں بیٹے عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے ٹرائل کا سامنا کیا۔ البتہ حسین نواز جی آئی ٹی کے روبرو ضرور پیش ہوتے رہے۔
اسی طرح احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں بھی پیش نہ ہونے پر حسن نواز اور حسین نواز کے 31 دسمبر 2018 کو وارنٹ جاری کر دیے تھے۔
پی ڈی ایم کے دور حکومت میں جب نواز شریف خود ساختہ جلاوطنی سے واپس لوٹے تو انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی درخواست کی اور انہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں عدالت نے بری کر دیا۔
اسی بنیاد پر حسن نواز اور حسین نواز نے احتساب عدالت میں درخواست دی کہ وہ قانونی کاروائی کا سامنا کرنے کو تیار ہیں، ان کے وارنٹ گرفتاری معطل کیے جائیں۔
ان کے وکیل قاضی مصباح الحسن نے عدالت کو بتایا کہ ان مقدمات میں باقی ملزمان پہلے ہی بری ہو چکے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے بھی عدالت میں اپنی رائے کا اظہار کیا کہ اگر ملزم خود عدالت کے روبرو سرنڈر کرنا چاہے تو اس کو یہ سہولت دی جانی چاہیے۔
جج ناصر جاوید رانا نے وکلا اور پراسیکیوٹرز کے دلائل کے بعد حسن نواز اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری 14 مارچ تک ملتوی کر دیے ہیں۔

شیئر: