Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں عدم مداخلت کے حامی صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی

نوے کی دہائی میں محمود خان اچکزئی نواز شریف کے اتحادی بنے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی گزشتہ پچاس سالوں سے سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ والد کے قتل کے بعد نوجوانی میں ہی پارٹی کی قیادت سنبھالی۔
وہ ایک بار صوبائی اور پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ محمود خان اچکزئی سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے اتحادوں کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
عمران خان اور محمود خان اچکزئی اس سے پہلے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے اور دونوں نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
وہ دستور پر عملدرآمد، پارلیمنٹ کی بالادستی کے حق اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں عدم مداخلت کے موقف کے حامی ہیں۔
محمود خان اچکزئی کا تعلق افغان سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے پشتون اکثریتی ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان سے ہے۔ وہ 12 دسمبر 1948 کو گلستان کے علاقے عنایت اللہ کاریز میں سابق قوم پرست رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کے ہاں پیدا ہوئے۔
محمود خان اچکزئی نے میٹرک اپنے آبائی علاقے گلستان کے سرکاری سکول جبکہ ایف ایس سی گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ سے کی ہے۔ انہوں نے پشاور کے انجینیئرنگ کالج سے مکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔
ان کے والد عبدالصمد خان اچکزئی نے قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکومت کے خلاف تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس کے نتیجے میں طویل عرصہ قید میں گزارا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ان کے والد فوجی حکومتوں کے خلاف بولنے اور تحریک چلانے پر پابند سلاسل رہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے جنرل ایوب کا مکمل دور حکومت جیل میں گزارا۔
ان کے والد نے قیام پاکستان سے پہلے انجمن وطن کے نام سے سیاسی تنظیم بنائی۔ انہیں بلوچستان میں صحافت کے بانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔

محمود خان اچکزئی تحریک بحالی جمہوریت کے سرکردہ رہنماؤں میں رہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

قیام پاکستان کے بعد ان کے والد نے ’ورور پشتون‘ کے نام سے تنظیم بنائی پھر نیشنل عوامی پارٹی میں ضم ہوکر ون یونٹ کی تشکیل کے خلاف تحریک چلائی۔ ان کے والد اور خود محمود خان اچکزئی بلوچستان کے پشتون علاقوں پر مشتمل الگ صوبے کے قیام کے حامی رہے ہیں۔
عبدالصمد خان اچکزئی نے اسی بنیاد پر نیپ سے الگ ہو کر پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے الگ جماعت بنائی۔ 1973 میں عبدالصمد خان اچکزئی کے ایک دستی بم حملے میں قتل کے بعد پارٹی کی قیادت محمود خان اچکزئی نے سنبھالی۔
وہ 1974 میں پہلی بار ضمنی انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔ محمود خان اچکزئی بھی فوجی حکومتوں کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہے ہیں۔ 1983 میں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے ضیا حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا جس کے دوران پولیس کے ساتھ تصادم میں ان کی جماعت کے چار کارکن قتل ہوئے۔ اس واقعے کے بعد محمود خان اچکزئی پر متعدد مقدمات بنے جس کے بعد وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے افغانستان چلے گئے اور1989 میں جنرل ضیا حکومت کے خاتمے کے بعد چھ سال بعد وطن واپس آئے۔ اس دوران وہ نواز شریف اور اسلامی جمہوری اتحاد کے مخالفین میں سے رہے۔

1973 میں عبدالصمد خان اچکزئی کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت محمود خان اچکزئی نے سنبھالی۔ (فوٹو: اےا یف پی)

نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر پشتونخوا میپ کے کارکنوں نے یوم سیاہ منایا تاہم نوے کی دہائی میں محمود خان اچکزئی میاں نواز شریف کے اتحادی بنے۔ محمود خان اچکزئی 1990 میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ 2024 میں وہ پانچویں قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔ 2008 کے انتخابات کا ان کی جماعت نے بائیکاٹ کیا۔
محمود خان اچکزئی تحریک بحالی جمہوریت کے سرکردہ رہنماؤں میں رہے۔ وہ پرویز مشرف حکومت کے خلاف بننے والے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ رہے۔ پشتون، بلوچ، سندھی اور سرائیکی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد پونم کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
محمود خان اچکزئی کے بڑے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر رہ چکے ہیں۔ ان کے چھوٹے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبائی رہ چکے ہیں۔

شیئر: