Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کا احتجاج: ’بچوں کی فیس دی نہ عید کے کپڑے خریدے‘

سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ’یونیورسٹیوں کے پاس اساتذہ کی تنخواہیں نہیں لیکن بڑی بڑی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
کوئٹہ میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج میں شریک ایک خاتون پروفیسر کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک کی جانب سے تلخ کلامی کے بعد وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز احمد بگٹی کو معذرت کرنا پڑی۔
یہ واقعہ پیر کو کوئٹہ میں صوبائی اسمبلی کے سامنے اس وقت پیش آیا جب بلوچستان یونیورسٹی کے سینکڑوں مرد و خواتین اساتذہ، ملازمین اپنے بچوں کے ہمراہ احتجاج کر رہے تھے۔
رکن اسمبلی علی مدد جتک اور پروفیسر تاترا اچکزئی کے درمیان تلخ کلامی کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون پروفیسر رکن اسمبلی کو کہتی ہیں کہ ’آپ کو ماؤں بہنوں کا احساس نہیں۔‘
اس کے جواب میں علی مدد جتک نے کہا کہ ’مجھے احساس نہیں ہوتا تو آپ کے پاس نہیں آتا، میری مائیں بہنیں سڑک پر نہیں بیٹھتیں۔‘
واضح رہے کہ تاترا اچکزئی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی بیٹی ہیں۔ پشتونخوا میپ نے رکن اسمبلی کے رویے کی مذمت کی ہے۔
خاتون پروفیسر کے ساتھ بات کرنے پر سوشل میڈیا پر بھی پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سماجی کارکن ضیا خان نے تبصرہ کیا کہ علی مدد جتک کو اپنے اس رویے پر بلوچستان کے اساتذہ اور خاص کر خاتون پروفیسر سے معافی مانگی چاہیے۔‘
’بلوچستان میں خواتین سے اگر رکن اسمبلی ایسی بات کرے گا تو باقی لوگوں سے کیا گلہ؟ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری سے بھی گزارش کی کہ وہ اس واقعہ کا نوٹس لیں۔‘
مصور خان نے لکھا کہ علی مدد جتک نے بلوچستان کی روایات کو پسِ پشت ڈالا ہے۔صحافی خدائے نور ناصر نے ’ایکس‘ پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ایم پی اے نے خاتون لیکچرارز کے ساتھ کس قسم کا رویہ اپنایا ہے، اس کا نوٹس لیں۔
احتجاج کی قیادت کرنے والے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدے دار اور بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر فرید احمد اچکزئی نے واقعہ سے متعلق اردو نیوز کو تفصیل بتاتی۔

 پشتونخوا میپ نے محمود اچکزئی کی بیٹی سے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے رویے کی مذمت کی ہے (فوٹو: سمیع خان)

انہوں نے کہا کہ ’ہم اسمبلی اجلاس کے دوران احتجاج کرنے پہنچے تو ایک رکن اسمبلی کی نشاندہی پر سپیکر نے پانچ چھ ارکان کی کمیٹی بنا کر مظاہرین سے مذاکرات کرنے کی ہدایت کی۔ اس کمیٹی میں پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک بھی شامل تھے۔‘
پروفیسر فرید احمد اچکزئی نے بتایا کہ ’مظاہرین کے چھ نمائندے ارکان اسمبلی کی کمیٹی سے مذاکرات کرنے اسمبلی کے اندر گئے۔ اس دوران ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ایک ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیے گئے ہیں۔‘ 
’وزیراعلٰی صوبے سے باہر ہیں، ان کی واپسی پر باقی رقم بھی جلد جاری کردی جائے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد ہم نے کمیٹی ارکان سے درخواست کی کہ وہ باہر جا کر مظاہرین کو بھی مطمئن کریں۔‘
پروفیسر فرید اچکزئی نے بتایا کہ ’جب ارکان اسمبلی مظاہرین سے بات کرنے آئے تو وہ انہیں مطمئن نہ کرسکے۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ پہلے بھی یقین دہانیاں کرائی گئیں مگر ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوا۔‘
’اس دوران علی مدد جتک اور ان کے ساتھ موجود کچھ دیگر نامعلوم افراد نے ایک خاتون پروفیسر تاترا اچکزئی سے بدتمیزی کی جس کی ہماری روایات اجازت نہیں دیتیں۔‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’ہم کوئی مراعات یا پھر بھیک نہیں بلکہ اپنی تنخواہیں مانگ رہے ہیں جو ہمارا حق ہے۔‘

احجاج کرنے والے اساتذہ اور ملازمین کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے بچوں کی سکول کی فیس تک نہیں دے سکے‘ (فوٹو: سمیع خان)

واقعے کے بعد وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز احمد بگٹی نے  خاتون پروفیسر کو ٹیلی فون کرکے رکن اسمبلی کے رویے پر ان سے معذرت کی۔ 
وزیراعلٰی سرفراز بگٹی نے اپنے ایک بیان میں تمام حکومتی ارکان کو عوام کے مسائل صبروتحمل سے سننے کی ہدایت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے عوامی مشکلات کو سننا اور حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جہاں حکومت کی غلطی ہوگی عوام سے معذرت کرے گی۔ خدمت اور بہتری ہمارا موٹو ہے غلطی کرسکتے ہیں بدنیتی اور بددیانتی نہیں۔‘
’پاکستان کی سیاست میں اور بالخصوص پیپلز پارٹی کے لیے خواتین کا احترام سب سے زیادہ ہے۔پارٹی کی قیادت دو خواتین نصرت بھٹو اور بی بی بے نظیر بھٹو نے کی۔‘
تنقید کا نشانہ بننے کے بعد علی مدد جتک نے ایک وضاحتی ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر خواتین سے بدتمیزی کے حوالے سے غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے۔‘
’جس طرح معاملے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے بات اس طرح نہیں۔ ہم بلوچ لوگ ہیں، ماؤں اور بہنوں کی عزت و احترام کرتے ہیں وہ بھی ہماری عزت کریں۔ ہم ان کی آواز بنتے ہیں۔ ابھی بھی ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘

بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کی ہڑتال کے موقع پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی (فوٹو: سمیع خان)

’بچوں کے سکول کی فیسیں دیں نہ عید کے کپڑے خرید سکے‘
بلوچستان یونیورسٹی میں الیکٹریشن کی حیثیت سے کام کرنے والے گریڈ پانچ کے ملازم مولوی محمد جان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں چار ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔‘
’مارچ میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے، ابھی تک بچوں کی سکول کی فیس اور کتابیں نہیں خرید سکے۔ رمضان فاقے میں گزر گیا، عید پر بچوں کو کپڑے تک نہیں دلاسکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہر تین چار ماہ بعد ہماری تنخواہیں رُک جاتی ہیں، ہم اُدھار پر گزارہ کرتے ہیں لیکن اب تو گلی محلے کے دکان دار تک ادھار پر راشن دینے کو تیار نہیں۔ دور دو وقت کے کھانے کے لیے محتاج ہوگئے ہیں۔‘
’ہم اس بات کے لیے پریشان رہتے ہیں کہ سحر اور افطار پر بچوں کو کیا کھلائیں۔ اللہ ہمارے حالات پر رحم کرے اور کسی کو اتنا مجبور نہ کرے جتنے ہم ہیں۔‘
’اساتذہ سڑکوں پر ہیں، ہماری تعلیم کا حرج ہو رہا ہے ‘
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم اسامہ نے بتایا کہ ’باقی یونیورسٹیوں میں فیسیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم نے سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن یہاں آئے روز احتجاج ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اساتذہ پڑھانے کے بجائے سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں جس سے ہماری تعلیم کا حرج ہو رہا ہے۔ہماری کلاسز نہیں ہو رہیں۔‘

پروفیسر فرید اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’وائس چانسلرز بے جا اخراجات کر رہے ہیں‘ (فوٹو: سمیع خان)

’اساتذہ ذہنی طور پر پریشان ہیں، وہ درس و تدریس کے بجائے ذاتی مسائل میں اُلجھ گئے ہیں۔ حکومت کو انہیں فوری تنخواہوں ادا کرکے ان کے مالی مسائل حل کرنے چاہییں تاکہ وہ یکسو ہو کر طلبہ کو پڑھا سکیں۔‘
’مالی بحران کا مستقل حل نکالا جائے‘
اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن بلوچستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر فرید اچکزئی کے مطابق ’بلوچستان یونیورسٹی کے 1500 سے زائد ملازمین ہیں جن میں 600 کے قریب اساتذہ ہیں جن کی ایک ماہ کی تنخواہ کی رقم 26 کروڑ روپے بنتے ہیں۔‘
’چار ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کم سے کم ایک ارب روپے کی ضرورت ہے لیکن صرف 25 کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کیے گئے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یونیورسٹی کے بیشتر ملازمین نے مالی مسائل کی وجہ سے یونیورسٹی میں قائم بینک سے اُدھار لیا ہے۔ چار ماہ سے یہ ادھار کی قسط بھی ادا نہیں کی ایک ماہ کی تنخواہ تو اس قسط کی ادائیگی میں بینکنک سسٹم کے ذریعے خود بخود کٹ جائے گی۔‘
’بلوچستان میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیاں صوبائی حکومت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے مالی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ باقی تینوں صوبوں نے اپنا صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا لیا ہے لیکن بلوچستان میں اب تک یہ کمیشن نہیں بنا۔‘

احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ’چار ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کم سے کم ایک ارب روپے کی ضرورت ہے‘ (فوٹو: سمیع خان)

پروفیسر فرید اچکزئی کہتے ہیں کہ ’بلوچستان یونیورسٹی کے مالی بحران کا مستقل حل نکالا جانا چاہیے۔بجٹ میں جس طرح باقی محکموں کے لیے سالانہ بنیادوں پر رقم مختص ہوتی ہے اسی طرح یونیورسٹی کے بھی بجٹ مختص کیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’750 ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں بلوچستان حکومت نے صوبے کی 12 یونیورسٹیوں کے لیے صرف دو ارب 50 کروڑ روپے کی گرانٹ دی ہے جبکہ صرف بلوچستان یونیورسٹی کے سالانہ اخراجات تین ارب 50 کروڑ روپے سے زائد ہیں۔‘
پروفیسر فرید اچکزئی نے بتایا کہ ’بلوچستان یونیورسٹی کی فیسوں کی مد میں سالانہ آمدن 50 کروڑ روپے سے زائد نہیں، وفاق سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے سالانہ صرف 98 کروڑ روپے ملتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’بلوچستان یونیورسٹی صوبے کی سب سے قدیم اور بڑی یونیورسٹی ہے، غربت کی وجہ سے لوگ اپنے بچے یہاں بھیجتے ہیں، اب بھی ایک سیمسٹر کی فیس 40 سے 45 ہزار روپے ہے۔ اگر ہم 400 فیصد فیس بڑھائیں تو ہی یونیورسٹی کے اخراجات  پورے ہوسکیں گے۔‘
’بچے چالیس پچاس ہزار روپے فیس نہیں دے سکتے، اگر یہ فیس تین چار لاکھ روپے ہو جائے تو پھر بہت سے غریب طلبہ تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔بلوچستان میں پہلے ہی اعلٰی تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
’یونیورسٹیوں میں مالی بے ضابطگیاں ہیں، احتساب کریں گے‘
حکومتی رکن اسمبلی ظہور بلیدی کا مؤقف ہے کہ ’صوبے کی یونیورسٹیوں میں ضرورت سے زائد ملازمین بھرتی کیے گئے ہیں، اندورنی آڈٹ، پلاننگ وفنانس کے نظام، سنڈیکیٹ کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جامعات کو مالی طور پر خودمختاری کی جانب لے کر جانے کے لیے انڈوومنٹ فنڈ قائم کیا جائے۔‘
’بلوچستان حکومت کی جانب سے مالی امداد کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یونیورسٹیوں کو براہِ راست فنڈنگ کی جاتی ہے لیکن گذشتہ دو سال سے ایچ ای سی نے صوبے کی یونیورسٹیوں کی فنڈنگ میں اضافہ نہیں کیا۔‘
وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ’یونیورسٹیوں کے پاس اساتذہ کی تنخواہیں نہیں لیکن بڑی بڑی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ضرورت سے زائد ملازمین کے ساتھ ساتھ گھوسٹ ملازمین بھی موجود ہیں۔بعض ملازمین کی تنخواہیں پندرہ پندرہ لاکھ روپے تک پہنچا دی گئی ہے اس بات کو دیکھا جائے گا کیا کہ بھاری تنخواہیں ان کی اہلیت کے مطابق دی جا رہی ہیں۔‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ہم جامعات کو بند نہیں ہونے دیں گے، ان کا مالی بحران حل کریں گے، تاہم اس کی وجوہات کا تعین بھی کریں گے۔‘
ان کے مطابق ’مالی بے ضابطگیوں پر احتساب کیا جائے گا۔ ہم اپنی یونیورسٹیوں کے ساتھ آئی ایم ایف والا کردار ادا کریں گے، ہم پیسے دیں گے لیکن اس کے نتائج بھی مانگیں گے۔‘
پروفیسر فرید اچکزئی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں بے جا اخراجات بھی ہو رہے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بے جا اخراجات ملازمین یا اساتذہ نہیں بلکہ وائس چانسلرز کر رہے ہیں جنہیں گورنر اور وزیراعلٰی نے تعینات کیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت اِن سے حساب لے۔ ہم یونیورسٹی کے مالی معاملات کے آڈٹ، احتساب اور غلط بھرتیوں کی تحقیقات کے حکومتی موقف کی حمایت کرتے ہیں۔‘

شیئر: