Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پرائمری سکول سے روزگار بنائیں،‘ پنجاب حکومت کا معیار تعلیم بہتر بنانے کا منصوبہ کیا ہے؟

’پروگرام کا مقصد پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کا سکولوں میں داخلہ یقینی بنانا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی جانب سے صوبے بھر کے سکولوں کا معیار بہتر کرنے کے لیے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت سکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے۔
 ’پبلک سکولز ری آرگنائزنگ پروگرام‘ کے ذریعے ان سکولوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جن کی تعمیر حالیہ عرصے میں ہوئی ہو یا جن میں بچے تو موجود ہیں لیکن کوئی استاد نہیں یا پھر ایسے سکول جن میں ایک یا دو اساتذہ موجود ہیں۔ 
یہ پروگرام پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیرِ سایہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت شروع کیا گیا ہے۔ 
صوبہ پنجاب کے ان مذکورہ سکولوں کو نوجوانوں، پروفیشنلز، ایجوکیشن و ٹیکنالوجی فرمز سمیت مختلف این جی اوز کے حوالے کیا جائے گا جن کا کام حکومتی سرپرستی میں اِن سکولوں کو چلانا ہوگا۔
اس میں قابل ذکر بات صوبے کے نوجوانوں کو شامل کرنا ہے یعنی کوئی بھی تین دوست، یا فیملی ممبرز ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت اس پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔
یہ افراد اپنے علاقے میں ایک پرائمری سکول کو چلانے کے ذمہ دار ہوں گے۔ ان تین تعلیم یافتہ نوجوانوں کو حکومت کی جانب سے تمام وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔
اس منصوبے کا مقصد کیا ہے؟
صوبائی حکومت اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ دستاویز کے مطابق اس وقت صوبے میں 52 ہزار سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں 4 لاکھ اساتذہ پڑھاتے ہیں جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ 
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں دو کروڑ 60 لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے۔ یہ تعداد پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ 
حکومت پنجاب نے ان بچوں کو سکولوں میں لانے اور ان تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے یہ منصوبہ تیار کیا ہے۔
اس حوالے سے ترجمان وزارت تعلیم پنجاب نور الہدیٰ نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ پورا منصوبہ حکومت پنجاب کی جانب سے ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے تحت پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو دیا گیا ہے جو اسے پورے صوبے میں پھیلانے کا ذمہ دار ادارہ ہے۔
ترجمان پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن احسان الحق نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 اے اور پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 4 (ایس ڈی جی 4) کے تحت پاکستان میں تعلیم کے حق کو یقینی بنانا ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے پبلک سکولز ری آرگنائزنگ پروگرام کے لیے جاری کیا گیا اشتہار (فائل فوٹو: حکومت پبجاب)

اُن کے بقول ’پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے اور سالانہ 2.1 فیصد کی شرح سے آبادی میں اضافے سے مزید 40 لاکھ بچے سکولوں میں داخل ہونے کے قابل ہو جاتے ہیں، لیکن انہیں سکولوں تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی۔‘
’اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے عوامی اور نجی شراکت داری کے ماڈل کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔‘
ترجمان پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے مطابق اس ماڈل کے خصوصی مقاصد میں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے والے سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ کرنا اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔
’طلبہ و طالبات کو سازگار تعلیمی ماحول فراہم کرنا، پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں بشمول سکول سے باہر بچوں کا سکولوں میں داخلہ یقینی بنانا اور اساتذہ کی کمی کو پورا کرنا بھی اس ماڈل کی ترجیحات میں شامل ہیں۔‘
نوجوانوں کے لیے سنہری موقع
سرکاری دستاویز کے مطابق یہ ماڈل تین مختلف مرحلوں میں تشکیل پائے گا جس کے تحت پہلے مرحلے میں 5 ہزار 863 سکولوں کا انتظام ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے تحت نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا۔
ان میں 567 سکولوں میں کوئی استاد موجود نہیں جبکہ 2 ہزار 555 سکولوں میں صرف ایک ایک استاد جبکہ 2 ہزار 741 سکولوں میں صرف دو دو اساتذہ موجود ہیں۔ 

پہلے مرحلے میں 5 ہزار 863 سکولوں کا انتظام ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے تحت نجی شعبے کو دیا جائے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسرے مرحلے میں ایسے 4 ہزار 453 سکول نجی شعبے کے حوالے کیے جائیں گے جن میں 51 سے 100 بچے داخلہ لے چکے ہوں گے لیکن ان کے لیے صرف دو اساتذہ موجود ہیں۔ 
اسی طرح تیسرے مرحلے میں ایسے 2 ہزار 903 سکول فہرست میں شامل کیے جائیں گے جن میں 100 سے زائد بچے موجود ہیں لیکن اساتذہ صرف دو ہی ہیں۔ 
اس کے لیے سرکاری طور پر اشتہار جاری کیا گیا ہے جبکہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر سکولوں کی معلومات بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔ اس کے تحت تین دوستوں کا ایک گروپ ایک سکول حاصل کرنے کے لیے اپنی مرضی کے پانچ سکولوں کی نشاندہی کرے گا۔
ان تین دوستوں میں سے ایک دوست کے لیے تین سال پڑھانے کا تجربہ ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ گروپ کے تین افراد میں سے ایک کے پاس ایم اے، ایم ایس سی، یا بی ایس کی ڈگری ہونا ضروری ہے جبکہ گروپ کے ایک رکن کے پاس کمپیوٹر سائنس، نیچرل سائنس یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ڈگری ضروری ہے۔ 
اسی طرح کے اصول فرمز، اور این جی اوز کے لیے بھی وضع کیے گئے ہیں۔ اس وقت اس پروگرام کے لیے درخواستوں کی وصولی کا مرحلہ جاری ہے جس کے بعد تمام درخواستوں کی جانچ پڑتال ہوگی اور پھر سکول متعلقہ افراد کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ 

صوبائی حکومت کی جانب سے پبلک سکولز ری آرگنائزنگ پروگرام کے لیے جاری کیا گیا اشتہار (فائل فوٹو: حکومت پبجاب)

یہ ماڈل کام کیسے کرے گا؟
پنجاب میں عوامی و نجی شراکت داری کے ذریعے سکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا یہ کوئی پہلا منصوبہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 2017-2016 میں بھی سرکاری سکولوں کی آؤٹ سورسنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں ان سکولوں میں بچوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ 
ترجمان پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے بتایا کہ سال 2016 میں اس نوعیت کا منصوبہ پرائیویٹ سروس پرووائیڈر کے اشتراک سے 4 ہزار 276 سکولوں میں شروع کیا گیا تھا۔
’اس وقت پبلک سکول سپورٹ پروگرام کامیابی سے چل رہا ہے جس میں طلبہ کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اساتذہ کی تعداد میں 143 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔‘
ان کے مطابق اس منصوبے کے تحت حکومت پنجاب نے بغیر رقم خرچ کیے سکولوں میں 10 ہزار کمروں کا اضافہ بھی کر لیا ہے۔ 
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اس عمل کو نجکاری نہیں کہہ رہا بلکہ اسے عوامی اور نجی شراکت داری کا نام دیا گیا ہے۔ 
اس ماڈل کے تحت تعلیمی ادارے حکومت کے زیرِسایہ ہی رہیں گے تاہم اُن کی آپریشنل مینجمنٹ نجی طور پر خدمات فراہم کرنے والوں کو سونپی جائے گی۔ 
ترجمان پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے مطابق ’اس پروگرام کے تحت نہ تو کسی بچے سے فیس وصول کی جائے گی اور نہ ہی کسی استاد کی ملازمت ختم یا اس کی مراعات میں کوئی کمی آئے گی۔‘ 

اس پروگرام کا ایک مقصد سکول سے باہر بچوں کا سکولوں میں داخلہ یقینی بنانا بھی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت پنجاب طے شدہ نرخوں کے مطابق سکول میں داخل بچوں کی فیس پرائیویٹ سروس پرووائیڈر کو ادا کرے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نہ صرف سکولوں کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں گے بلکہ اپنے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بنا سکیں گے۔
اس حوالے سے ماہر تعلیم تیمور بانڈے بتاتے ہیں کہ یہ سکولوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بیک وقت مالی بہتری کی جانب بھی ایک مؤثر اقدام ہے۔
 اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’نوجوان اس پروگرام میں آئیں گے اور سرمایہ کاری کریں گے تو سکولوں کا ماحول بہتر ہوگا اور انہیں روزگار کے مواقع بھی میسر ہو سکیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے دیگر پہلوؤں پر بھی غور ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت ایک پائلٹ پروگرام شروع کر کے اپنی جان چھڑوا لے۔ 
’دیکھنا ہوگا کہ اس پروگرام کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ بچوں کو نجی تعلیمی اداروں سے سرکاری اداروں میں لانا بھی ایک بڑا امتحان ہوگا۔‘ 

شیئر: