Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آشا بھوسلے، موسیقی میں نئے تجربات کرنے والی بالی وُڈ کی ’باغی گلوکارہ‘

آشا بھوسلے  8 ستمبر 1933 کو شاہی ریاست سانگلی کے گاؤں گور میں پیدا ہوئیں (فائل فوٹو: فلم فیئر)
اُس نے اپنی بہن کے سیکرٹری سے شادی کی تو اُس کی باغیانہ فطرت عیاں ہو گئی تھی۔ اُس وقت اس کی عمر 16 برس ہی تو تھی۔ یہ فیصلہ بھلے غلط ہی کیوں نہ ثابت ہوا مگر وہ اس پر ڈٹی رہی۔ اور اپنے طویل موسیقی کے کریئر میں بھی گیتوں کے انتخاب میں وہ ’باغی‘ نظر آتی ہیں جن میں ایک نیاپن تھا، تنوع تھا اور وہ عام ڈگر سے ہٹ کر تھے، جنہوں نے ’آشا‘کو ’آشا بھوسلے‘ بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
برصغیر پاک و ہند کی یہ عظیم گلوکارہ آج ہی کے روز 8 ستمبر 1933 کو شاہی ریاست سانگلی کے گاؤں گور میں پیدا ہوئیں۔ مہاراشٹر کا دریائے کرشنا کے کنارے آباد یہ شہر ہلدی کی پیداوار کے باعث مشہور ہے۔
والد پنڈت دینا ناتھ اپنے عہد کے مشہور اداکار اور گلوکار تھے، جنہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تربیت گوالیار گھرانے سے حاصل کی تھی۔
دادا گوا کے تاریخی منگیشی مندر سے پنڈٹ کے طور پر منسلک تھے جب کہ دادی یسوبائی دیوداسی تھیں جن کے خون میں ہی فن کی خدمت کرنا شامل تھا۔ منگیشی شہر کی نسبت سے ہی برہمنوں کا یہ خاندان منگیشکر کے لاحقے سے مشہور ہوا۔
آشا نو برس کی تھیں تو والد چل بسے۔ اُس وقت فلموں کے لیے گیت گانا اُن کا شوق نہیں بلکہ مجبوری تھی۔ اُن کے لیے مگر موسیقی میں اپنا کریئر بنانا آسان ثابت نہیں ہوا۔
انہوں نے سال 1948 میں ہنس راج بہل کی فلم ’چنریا‘ کے لیے گیت گایا مگر کامیابی کے لیے اُن کو فی الحال کئی برس انتظار کرنا تھا۔ یہ وہ ہنس راج بہل ہی ہیں جنہوں نے غیرمنقسم ہندوستان کے شہر لاہور کے تاریخی انارکلی بازار میں موسیقی کا ایک سکول قائم کیا تھا اور ریکارڈ لیبل ’ایچ ایم وی‘ کے ذریعے کچھ غیر فلمی گیت بھی ریلیز کیے تھے۔
آشا کو بڑی بریک کا انتظار تھا، یہ وہ دور تھا جب لتا جی کو سال 1948 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مجبور‘ کے ذریعے بالی وڈ میں بڑا بریک مل چکا تھا۔ وہ ان دنوں ہی اپنے سے دگنی عمر کے گنپت راؤ بھوسلے سے محبت کر بیٹھیں۔ یہ موصوف اُن کی بہن کے سیکرٹری تھے۔ وہ اُس وقت صرف 16 برس کی تھیں۔ منگیشگر خاندان نے اس شادی کو قبول نہیں کیا اور آشا جی سے تمام رشتے ناتے توڑ لیے۔ بعدازاں آشا نے بیٹے ہیمنت کو جنم دیا تو اُن کا اپنے خاندان سے رشتہ بحال ہونا شروع ہوا۔ اُن کے شوہر مگر یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنے خاندان اور خاص طور پر لتا کے قریب ہوں۔

آشا نے سال 1948 میں ہنس راج بہل کی فلم ’چنریا‘ کے لیے گیت گایا (فائل فوٹو: آئی ایم ڈی بی)

آنے والے برسوں میں آشا دو اور بچوں کی ماں بنیں مگر اس نوجوان جوڑے میں تعلقات کبھی بحال نہ ہو سکے۔ آشا جی نے بھارتی صحافی کویتا چھبر کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے بہت چھوٹی عمر میں محبت کی شادی کر لی جس پر لتا مجھ سے ناراض ہو گئیں اور انہوں نے میری مدد کرنے سے انکار کر دیا۔‘
انہوں نے اس انٹرویو میں ہی اپنے سسرال کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا ’میرا سسرال بہت تنگ ذہن تھا جس کے لیے گلوکارہ بہو کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ انہوں نے میرے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا اور مجھے بالآخر اس وقت گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا جب میں اپنے سب سے چھوٹے بچے کو جنم دینے والی تھی۔‘
آشا اس شادی کے بعد ’بھوسلے‘ ہوئیں تو انہوں نے کبھی ’منگیشکر‘ کا لاحقہ استعمال نہیں کیا بلکہ ایک مشکل شادی اور بچوں کے ساتھ کامیابی کے در وا کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ سفر مگر آسان نہیں تھا۔
انہوں نے 50 کی دہائی میں کسی بھی دوسری پلے بیک گلوکارہ کی نسبت زیادہ گیت گائے، یہ وہ زمانہ تھا جب لتا، گیتا دَت اور شمشاد بیگم کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھیں۔ ایسے میں ان گلوکاراؤں کی جانب سے کوئی پیشکش رَد کی جاتی تو وہ آشا قبول کر لیتیں چنانچہ انہوں نے اس زمانے میں بہت سی دوسرے اور تیسرے درجے کی فلموں کے لیے گیت گائے۔
انہوں نے اس دوران اگرچہ بے مثل ہدایت کار بمل رائے کی فلم ‘پرینیتا‘ اور راج کپور کی فلم ’بوٹ پالش‘ کے لیے گیت گائے مگر سال 1956 میں ریلیز ہوئی فلم ’سی آئی ڈی‘ اُن کے کریئر میں اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی موسیقی او پی نیّر نے دی تھی جس کے بعد دونوں میں ایسا تخلیقی رشتہ قائم ہوا جس نے بالی وُڈ کو بہت سے یادگار گیت دیے۔

سنہ 1949 میں آشا بھوسلے نے اپنے سے دگنی عمر کے گنپت راؤ بھوسلے سے شادی کر لی (فائل فوٹو: بالی وُڈ شادیز)

او پی نیّر لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے گیتا دَت، محمد رفیع اور شمشاد بیگم کے بہت سے کامیاب گیتوں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ محمد رفیع اور شمشاد بیگم کی زندگی سے بھی لاہور کو جدا کرنا آسان نہیں۔
سنہ 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ’نیا دور‘ کے ذریعے گلوکارہ کو وہ بریک ملا جس کے لیے انہوں نے طویل عرصہ انتظار کیا تھا۔ اس فلم کے موسیقار بھی او پی نیّر ہی تھے جب کہ ہدایت کار اور پروڈیوسر بی آر چوپڑہ تھے جو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر لاہور کے معروف فلمی جریدے ’سائن ورلڈ‘ کے لیے کسی زمانے میں فلم ریویو لکھتے رہے تھے۔ معروف ہدایت کار اور فلم ساز یش چوپڑہ ان کے چھوٹے بھائی تھے۔
فلم ’نیا زمانہ‘ میں دلیپ کمار اور وجنتی مالا بڑے پردے پر ایک ساتھ نظر آئے۔ یہ فلم صرف باکس آفس پر ہی کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اپنے یادگار گیتوں کی وجہ سے بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اس فلم کے لیے دلیپ کمار کو بہترین اداکار کا مسلسل تیسری بار اور مجموعی طور پر چوتھا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
اس فلم کے لیے ساحر لدھیانوی کے لکھے اور محمد رفیع کے ساتھ آشا جی کے گائے دو گانے؛
’مانگ کے ساتھ تمہارا
میں نے مانگ لیا سنسار‘،
’ساتھی ہاتھ بڑھانا
ایک اکیلا تھک جائے گا
مل کر بوجھ اٹھانا‘
یا
’اووو…ا
اُڑیں جب جب زلفیں تیری
کنواریوں کا دل مچلے
جِند میریے‘
کامیاب تو ہوئے ہی بلکہ ان گیتوں میں ایک ایسی آشا نظر آئیں جن کی آواز میں گہرائی تھی، سنجیدگی تھی مگر ساتھ ہی ایک شرارت تھی، نشہ تھا اور چُلبلا انداز تھا۔ ان گیتوں کی کامیابی نے بکھری ہوئی زندگی کے تانے بانے جوڑ رہی آشا کو نیا اعتماد دیا، جس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ وہ پہلی فلم تھی جس میں آشا نے فلم کی مرکزی اداکارہ کے لیے تمام گیت گائے تھے۔

آشا بھوسلے کی ایک بیٹی ورشا بھوسلے ہیں (فائل فوٹو: ڈیلی سن)

بھارت کے اُردو اخبار ’قومی آواز‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق آشا جی سے ایک بار ان کی صاحب زادی ورشا نے پوچھا:
’آپ کی بہن اور گھر والے جب آپ کے ساتھ تھے تو آپ نے اتنی محنت کیوں کی اور اپنے بچوں کے ساتھ وقت کیوں نہیں گزارا؟‘
گلوکارہ نے کہا تھا:
’میں نے ایک بار جب یہ سوچ لیا تھا کہ کسی کے ساتھ زندگی نہیں گزارتی تو پھر گھر والوں کی مدد کیوں لیتی؟‘
یوں آشا نے اپنے لیے خود ایک راستہ تراشا تھا جس پر وہ کامیابی سے آگے بڑھتی رہیں۔
انہوں نے آنے والے برسوں میں بی آر چوپڑا کی کئی فلموں کے لیے گیت گائے جن میں ’گمراہ‘، ’وقت۔‘ ،’ہمراز‘، ’آدمی اور انسان‘ اور ’دھند‘ شامل ہیں جب کہ او پی نیّر اور اُن کا تخلیقی رشتہ بہت سے کامیاب گیت دینے کے بعد کچھ ذاتی اور پیشہ ورانہ وجوہات کے باعث ٹوٹ گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں محبت کے رشتے میں بندھ گئے تھے جو آگے نہ بڑھ سکی۔
ڈیجیٹل نیوز کے ادارے انڈیا ڈاٹ کام میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق موسیقار او پی نیر نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں آسٹرولوجی کے علم کے بارے میں آگہی رکھتا ہوں۔ میں یہ جانتا تھا کہ مجھے ایک دن اُس سے الگ ہونا ہے۔ کچھ ایسا بھی ہوا جس نے مجھے پریشان کیا تو میں اُس سے الگ ہو گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی میں آنے والی اہم ترین شخصیت آشا بھوسلے کی ہے۔ وہ ایک بہترین انسان ہیں جن سے میں ملا۔‘
آشا بھوسلے نے مگر ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں او پی نیر کے حوالے سے ترش لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا، ’مجھے جس کسی بھی موسیقار نے کام دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت میری آواز اس کی موسیقی سے ہم آہنگ تھی۔ کسی بھی موسیقار نے مجھے اپنے لیے گانے کی پیشکش کر کے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا۔‘

او پی نیر نے کہا تھا کہ میری زندگی میں آنے والی اہم ترین شخصیت آشا بھوسلے کی ہے (فائل فوٹو: کوئی موئی)

وہ او پی نیر کی بجائے اپنی پہلی بریک کا کریڈٹ فلم ’نیا دور‘ کے ہدایت کار اور پروڈیوسر بی آر چوپڑہ کو دیتی رہی ہیں۔
ان ہی برسوں سال 1966 میں فلم ’تیسری منزل‘ ریلیز ہوئی۔ ڈانسنگ ہیرو شمی کپور اور آشا پاریکھ کی یہ فلم باکس آفس پر کامیاب تو رہی ہی بلکہ اس کے گیت بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے جن کے ذریعے آر ڈی برمن کو وہ بریک مل گیا تھا جس کے وہ منتظر تھے۔
آشا نے اس فلم کے لیے ایک بار پھر محمد رفیع کے ساتھ دو گانے گائے تھے جو آج دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں، اس فلم کے دو گانوں،
’آ جا آجا
میں ہوں پیار تیرا
اللہ اللہ انکار تیرا‘ ،
’او میرے سونا رے
سونا رے
دے دوں گی جان جدا مت ہونا رے
میں نے تجھے ذرا دیر میں جانا
ہوا قصور خفا مت ہونا رے‘
یا
’او حسینہ زلفوں والی
جانِ جہاں
ڈھونڈتی ہیں کافر آنکھیں
کس کا نشاں‘
میں آشا اپنے زمانے سے بہت آگے نظر آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ آر ڈی برمن نے جب گیت ’آ جا آ جا‘ کے لیے آشا بھوسلے سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ گیت گانے سے انکار کر دیا کیوں کہ اُن کا یہ خیال تھا کہ وہ یہ مغربی دھن نہیں گا پائیں گے جس پر آر ڈی برمن نے موسیقی تبدیلی کرنے کا سوچا تو آشا نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور یہ گیت ایک چیلنج سمجھ کر گایا۔ انہوں نے اس گیت کے لیے 10 روز تک ریہرسل کی اور جب یہ ریکارڈ ہوا تو فلم بین ایک مختلف طرز کی موسیقی سے متعارف ہوئے۔
شمی کپور نے اسی گانے کے لیے کہا تھا ’محمد رفیع اگر مجھے اپنی آواز مستعار نہ دیتے تو آشا بھوسلے یہ ذمہ داری ادا کرتیں‘۔
اس فلم کے بعد آشا اور آر ڈی برمن میں ایسا تخلیقی رشتہ استوار ہوا جس نے بالی وڈ میں سنگیت کی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ فلم ’ہرے رام ہرے کرشنا‘ کا گیت، ’دم مارو دم‘ ہو یا فلم ’یادوں کی بارات‘ کا گیت، ’چرا لیا ہے تم نے‘ ، دونوں نے ایک ساتھ کئی یادگار گیت تخلیق کیے۔
ان دونوں کا یہ تخلیقی رشتہ محبت کی ایک ایسی یادگار داستان میں تبدیل ہو گیا جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
محبت کی اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب نوجوان آر ڈی برمن نے فی الحال فلمی دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا۔ وہ اکثر اپنے والد ایس ڈی برمن کے ساتھ فلمی سٹوڈیوز آجایا کرتے اور انہوں نے انہی دنوں پہلی بار آشا کو دیکھا، وہ اُن کی گائیکی کے مداح تھے، تو انہوں نے گلوکارہ سے آٹو گراف لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ آنے والے برسوں میں نوجوان برمن کی شادی تو ہوئی مگر یہ کامیاب نہ ہو سکی۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ آشا کے قریب آئے جس کی ایک وجہ ان دونوں کی موسیقی سے وابستگی تھی اور دونوں ہی رجحان ساز تھے۔ چنانچہ آشا سے عمر میں چھ برس چھوٹے آر ڈی برمن نے گلوکارہ کو شادی کی پیشکش کر ڈالی۔ گلوکارہ کے لیے اُس وقت تک اُن کی سابق شادی کا دردناک انجام اُن کے سامنے تازہ تھا مگر موسیقار کے بارہا اصرار پر وہ یہ شادی کرنے پر تیار ہو گئیں اور یوں دونوں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ہو گئے۔

آشا اور آر ڈی برمن کا تخلیقی رشتہ محبت کی یادگار داستان میں تبدیل ہو گیا (فائل فوٹو: کوئی موئی)

یہ میوزک انڈسٹری پر حکمرانی کر رہا بالی وڈ کا پہلا جوڑا تھا۔ آشا کی دوسری شادی اُن کی پہلی شادی کی طرح نہیں تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے تھے مگر آر ڈی برمن کی کثرتِ مے نوشی اس رشتے کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن گئی اور وہ دونوں الگ ہو گئے۔
اسّی کی دہائی میں اگرچہ آشا بھوسلے کا شمار صفِ اول کی گلوکاراؤں میں کیا جانے لگا تھا مگر ان کی پہچان ایک ’کیبرے‘ اور ’پاپ‘ گلوکارہ کی بن کر رہ گئی تھی۔
سنہ 1981 میں فلم ’امراؤ جان‘ ریلیز ہوئی۔ ریکھا کی یہ فلم باکس آفس پر تو کامیاب رہی ہی بلکہ یہ اپنی موسیقی کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائے گی۔
اس فلم کے گیتوں؛
‘دل چیز کیا ہے
آپ میری جان لیجیے
بس ایک بار میرا کہا
مان لیجیے’،
’ان آنکھوں کی مستی کے
مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ
افسانے ہزاروں ہیں‘،
’یہ کیا جگہ ہے دوستو
یہ کون سا دیار ہے
حدِ نگاہ تک جہاں
غبار ہی غبار ہے‘
یا
’جستجو جس کی تھی
اس کو تو نہ پایا ہم نے‘
کو  گا کر آشا بھوسلے خود حیران رہ گئیں کہ وہ اس قدر مختلف گا سکتی ہیں جس پر اُن کو اُن کا پہلا نیشنل ایوارڈ ملا۔

سنہ 1981 میں فلم ’امراؤ جان‘ ریلیز ہوئی جس کے گانوں نے آشا کو لازوال شہرت سے ہمکنار کیا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

گلوکارہ کو چند برس بعد ہی فلم ’اجازت‘ کے گیت؛
’میرا کچھ ساماں
تمہارے پاس پڑا ہے
اوہ، ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن
رکھے ہیں
اور میرے اِک خط میں لپٹی
راکھ پڑی ہے
وہ راکھ بجھا دو
میرا وہ ساماں لوٹا دو‘
پر دوسرا نیشنل ایوارڈ ملا۔
سال 1995 میں ہدایت کار رام گوپال ورما کی فلم ’رنگیلا ‘ ریلیز ہوئی۔ یہ بطور موسیقار اے آر رحمان کی پہلی ہندی فلم تھی۔ اس وقت آشا بھوسلے کی عمر 62 برس تھی مگر انہوں نے جب اُرمیلا کے لیے اپنی آواز مستعار دی تو فلم بین بے اختیار اَش آش کر اٹھے۔
اس فلم کے گیت،
’تنہا تنہا یہاں پہ جینا
یہ کوئی بات ہے
کوئی ساتھ نہیں دیتا یہاں
یہ کوئی بات ہے‘
یا
’رنگیلا رے‘
بلاک بسٹر ثابت ہوئے جس کے بعد اے آر رحمان اور آشا بھوسلے نے ایک ساتھ کئی یادگار گیت دیے۔

فلم ’رنگیلا‘ کے بعد اے آر رحمان اور آشا بھوسلے نے ایک ساتھ کئی یادگار گیت دیے (فائل فوٹو:  رحمانیک ڈاٹ کام)

گزشتہ ہزاریے کی آخری اور رواں ہزاریے کی پہلی دہائی میں گلوکارہ کے کئی گیت بلاک بسٹر رہے جن میں فلم ’لگان‘ کا گیت؛
’رادھا کیسے نہ جلے‘
فلم ’پیار تو نے کیا کیا‘ کا گیت،
’کمبخت عشق‘
فلم ’فی الحال کا گیت،
’یہ لمحہ‘
اور
فلم ’لکی‘ کا گیت،
’لکی لِپس‘
ان کے اس عہد کے نمائندہ ہیں۔
آشا بھوسلے نے اپنے عہد کے تمام اہم موسیقاروں کے لیے گیت گائے جن میں موسیقاروں کی جوڑی شنکر جے کشن اور مدن موہن نمایاں ہیں جن کا گیت؛
’جھمکا گِرا رے بریلی کے بازار میں‘
پے پناہ مقبول ہوا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آشا جی ہر عہد کی ضرورتوں کے مطابق اپنی آواز ڈھالنے میں کامیاب رہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کی آواز مختلف ادوار کی پہچان بن گئی۔ یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث اکثر یہ بحث کی جاتی ہے کہ لتا بڑی گلوکارہ ہیں یا آشا جی؟ اس سوال کا جواب شاید ہی کبھی مل سکے مگر اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ آشا جی نے ایک ایسے عہد میں اپنی پہچان بنائی جب لتا جی اپنے کریئر کے عروج پر تھیں۔ وہ ہمیشہ مقابلے میں رہیں اور جیسا کہ ذکر ہوا، اپنی آواز کو ضرورت کے مطابق تبدیل کرتی رہیں جس کے باعث ان کی گائیکی میں زیادہ تنوع ہے اور وہ مختلف زمانوں سے ہم آہنگ رہی ہیں مگر اس سوال کا جواب شاید ہی کبھی مل پائے کہ دونوں بہنوں میں سے بڑی گلوکارہ کون ہے؟

آشا جی نے ایک ایسے عہد میں اپنی پہچان بنائی جب لتا جی اپنے کریئر کے عروج پر تھیں (فائل فوٹو: ٹائمز ناؤ)

آشا جی کو ان کے طویل کریئر کے دوران سب سے زیادہ سات بار بہترین خاتون پلے بیک گلوکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ بالی وڈ کا اہم ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں جب کہ موسیقی کی تاریخ میں سب سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ بھی انہی کے نام ہے۔
یہ بھی ایک منفرد اعزاز ہے کہ انہوں نے بھجن گائے، پاپ گیت گائے، غزلیں گائیں، قوالیاں اور لوک گیت گائے، روایتی کلاسیکی گیت گائے، یوں کہہ لیجیے کہ ہر طرز کے گیت گائے جو ہر عمر اور ہر عہد کے سامع کے لیے ہیں کہ ان کے فن کو زماں و مکاں کی حدود میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ 

شیئر: