لیپ ٹاپ سکیم سمیت پنجاب کے تین منصوبوں میں خامیاں،’شفاف بنانے کی ضرورت‘
لیپ ٹاپ سکیم سمیت پنجاب کے تین منصوبوں میں خامیاں،’شفاف بنانے کی ضرورت‘
منگل 1 اکتوبر 2024 10:22
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
رپورٹ کے مطابق لیپ ٹاپ سکیم شروع کرنے سے پہلے فزیبیلیٹی سٹڈی نہیں کی گئی تھی (فوٹو: اے پی پی)
وزیراعلٰی پنجاب کے تین بڑے فلیگ شپ منصوبوں لیپ ٹاپ سکیم، ٹورازم برائے معاشی استحکام اور سکلز ڈویلیمپنٹ فنڈ میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
حکومت پنجاب کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کی درخواست پر قائداعظم یونیورسٹی میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے ماہرین نے تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مذکورہ بالا تین منصوبوں میں مختلف قسم کی بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔
ماہرین نے مستقبل میں ایسی بے قاعدگیوں سے اجتناب کے لیے منصوبوں کے آغاز سے قبل تحقیق کی سفارش کی ہے۔
پنجاب پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے پائیڈ سے درخواست کی تھی کہ صوبے میں چلائے جانے والے ان منصوبوں پر تحقیق کر کے رہنمائی کی جائے کہ یہ کس حد تک مفید تھے اور آئندہ اس قسم کے منصوبوں کو کیسے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
تحقیق کے بعد پیر کے روز جاری کی گئی پائیڈ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ بورڈ اور صوبے کے کئی دیگر اداروں نے اس تحقیق میں اشتراک کیا اور اس کو مرتب کرنے کے لیے تمام ضروری ڈیٹا فراہم کیا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے ماہرین ثوبیہ روز، تہمینہ اسد اور یاسر زادہ خان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پنجاب حکومت کے منصوبوں کو مزید شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔
سکولوں کی لیپ ٹاپ سکیم سے یونیورسٹی طلبا مستفید
رپورٹ میں لیپ ٹاپ سکیم کے تفصیلی جائزے کے بعد بتایا گیا ہے کہ ُ2011 میں شروع کیے گئے اس پروگرام کے تحت بنیادی طور پر سکولوں کے طلبا کو لیپ ٹاپس دیے جانے تھے تاہم ممکنہ مسائل کی وجہ سے یہ سکولوں کے بچوں کے بجائے یونیورسٹی طلبا میں تقسیم کیے گئے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیپ ٹاپ سکیم شروع کرنے سے پہلے اس کی فزیبیلیٹی سٹڈی نہیں کی گئی تھی۔ ’اگر اس کی فزیبیلیٹی سٹڈی کی جاتی تو یہ سکیم سے مستفید ہونے والوں کے بارے میں بہتر معلومات فراہم کر سکتی تھی جو کہ اس کی لاگت اور حتمی فوائد کے حصول میں مددگار ہوتی۔‘
اسی طرح یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ تقسیم کیے گئے لیپ ٹاپس کی کن طلبا کو ضرورت تھی۔ اس سکیم کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے لیے آئی ٹی کے ماحول کو فروغ دینا تھا تاہم ان خصوصیات سے لیس یہ لیپ ٹاپ ایسے طلبا میں بھی تقسیم کئے گئے جو سماجیات، ریاضی، اور بنیادی سائنس کے طالب علم تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہر مضمون کے طلبا کو ایک ہی طرح کے لیپ ٹاپس نہیں دیے جا سکتے کیونکہ آئی ٹی اور کمپیوٹر انجینئرنگ پڑھنے والے طلبا کو دوسرے مضامین کے طلبا کی نسبت بہتر صلاحیتوں والے کمپیوٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلی لیپ ٹاپ سکیم کے لیے مختلف طلبا کے مضامین کی ضروریات کے مطابق لیپ ٹاپ فراہم کرنا اہم ہے۔
رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی سطح پر ایسی سکیمیں کم آمدنی سے تعلق رکھنے والے سکولوں کے بچوں کو لیپ ٹاپ اور آئی ٹی کے آلات دینے کے لیے شر وع کی جاتی ہیں لیکن اس سکیم میں اس پہلو کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔
حکومتی لیپ ٹاپ مہنگے، مارکیٹ میں سستے
پائیڈ نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی ہے کہ مستقبل میں ایسی سکیم کے لیے مختلف پہلو مدّنظر رکھے جائیں جیسے کہ :
انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں بہتری کے عوامل
سکیم کا طلبا کے سیکھنے کی صلاحیت پر اثرات کا جائزہ
یونورسٹیوں میں تحقیقی نتائج میں اضافہ اور بیرون ملک پاکستان کے ہنر مند افراد کی خدمات میں اضافہ
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب نے سرکاری سکیم کے لیے مہنگے لیپ ٹاپ خریدے۔
وزیراعلٰی پنجاب لیپ ٹاپ سکیم کے لیے خریدے گئے لیپ ٹاپ پہلے فیز میں 37،700 فی یونٹ، دوسرے میں 38،338، تیسرے میں41،289 اور چوتھے میں 45،937 کے تھے جبکہ یہی لیپ ٹاپ اس تمام وقت میں عام مارکیٹ میں 18 سے 25 ہزار میں دستیاب تھے۔
مزید براں ان لیپ ٹاپس کی فروخت کے بعد سروس کے لیے قائم کئے گئے سروس سینٹرز بھی ناکافی تھے۔
ابتدا میں سروس سٹیشنز ضلعی سطح پر قائم کیے گئے اور بعد میں ڈویژن سطح تک محدود کر دیے گئے لیکن وہاں بھی یہ سینٹرز طلبا کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اور بہت سے طلبا کو ان سینٹرز کے متعلق آگاہی تک نہیں تھی۔
’لیپ ٹاپس کی تقسیم کے وقت اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا گیا کہ جن علاقوں میں یہ فراہم کیے جا رہے ہیں وہاں انٹرنیٹ ہے یا نہیں۔ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ مناسب انٹرنیٹ کے بغیر لیپ ٹاپس کی فراہمی کسی ملک کو انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں بہتر نہیں بتاتی۔‘
’لیپ ٹاپ سکیم سیاسی عزائم سے دور ہونی چاہیے‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ادوار میں لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے کئی طلبا نے بعد ازاں انہیں مارکیٹ میں فروخت بھی کر دیا۔
ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے مستقبل میں حکومت یونیورسٹیوں میں لیپ ٹاپس بنک قائم کر سکتی ہے جہاں طلبا استعمال کے بعد لیپ ٹاپس واپس جمع کروا دیں اور حکومت ان کی تقسیم پر بھاری رقوم خرچ کرنے کے بجائے ان فنڈز سے یونیورسٹیوں کی استعداد میں اضافہ کرے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ لیپ ٹاپ طرز کی سکیموں کو سیاسی عزائم سے دور رکھا جانا چاہیے تاکہ ان کی لاگت بہتر بنائی جا سکے۔
مزید یہ کہ ان لیپ ٹاپس کی تقسیم کے لیے بڑی بڑی تقاریب منعقد کرنے کے بجائے سائنسدانوں، دانشوروں، سماجی کارکنوں اور از خود طلبا کے ہاتھوں تقسیم کیا جائے۔
ٹورازم فنڈ سے گورنر ہاؤس کی گولف کارٹس خریدی گئیں
پائیڈ کے ماہرین نے پنجاب حکومت کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کی درخواست پر اس کے ’سیاحت برائے معاشی استحکام‘ منصوبے کا بھی جائزہ لیا۔
یہ منصوبہ ورلڈ بنک کے فنڈ کی مدد سے جاری کیا گیا تھا اور ماہرین نے اس میں بھی کئی خامیوں کی نشاندہی کی۔
رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کو ابتدا میں مذہبی سیاحت پر استوار کیا گیا لیکن ایسا کرتے وقت یہ نہیں دیکھا گیا کہ اس کے ذریعے بنائے جانے والے انفراسٹرکچر کے نتیجے میں کیا فوائد حاصل ہوں گے اور مذہبی سیاحوں کا اور ان کے اخراجات سے حاصل ہونے والا ریونیو کتنا ہو گا۔
حتٰی کہ سال 2020-21 میں اس منصوبے کے پی سی ون پر نظر ثانی اور تشکیل نو کے بعد بھی ابتدائی طور پر منتخب کئے گئے مقامات پر سڑکوں کی تعمیر جاری رہی۔ اس منصوبے کے ذریعے سیاحت کی صنعت کے کئی ایسے شعبوں کے لیے بھی خریداری کی جاتی رہی جو اس منصوبے کا حصہ نہیں تھے۔
ورلڈ بنک کی مارچ 2024 کی رپورٹ میں بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کے تحت گورنر ہاؤس لاہور کے لیے گالف کارٹس خریدی گئیں جو ان 52 اخراجات میں شامل ہیں جن کا سیاحت کی ترقی کے اس منصوبے سے تعلق نہیں ہے اور ان کے لیے کی گئی خریداریوں اور بجٹ کے انتظام پر سوال اُٹھائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کا بنیادی حصہ کرتارپور گردوارہ اس بنیاد پر اس سے الگ کر دیا گیا کہ اس کے لیے فنڈز کا انتظام مقامی وسائل سے کیا جائے گا۔
’لیکن اس سے پراجیکٹ میں پیچیدگیاں بڑھیں کیونکہ اس کے لیے جن دوسرے مقامات کا انتخاب کیا گیا وہاں اقتصادی فوائد اتنے نہیں تھے جتنے کہ اس جگہ کے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نجی شعبے سے سیاحت میں 40 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے آٹھ مقامات پر 30 منصوبے بنائے گئے لیکن ان پر عمدلدرآمد نظر نہیں آیا۔
سکلز ڈیویلپمنٹ فنڈ میں شفافیت کی ضرورت
پائیڈ نے اپنی تحقیق میں پنجاب سکلز ڈیویلپمنٹ فنڈ (پی ایس ڈی ایف) کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے پانچ لاکھ 13 ہزار 8 سو بارہ افراد کی تربیت کی ہے اور 600 سے زائد شعبوں میں2 ہزار پانچ سو مقامات پر 700 نجی شراکت داروں کے ہمراہ مواقع پیدا کیے ہیں۔
تاہم اس میں غیر شفاف عوامل سمیت کئی دوسری خامیاں نوٹ کی گئی ہیں جن میں سے ایک غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار بھی ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس پروگرام کے لیے پائیدار وسائل کا بندوبست کیا جائے اور سرکاری فنڈ سے انڈوومنٹ فنڈ قائم کر کے اس کی سرمایہ کاری کے منافع سے پی ایس ڈی پی کے معاملات چلائیں۔
مزید یہ کہ غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دیا جائے۔
پائیڈ نے حکومت پنجاب سے کہا ہے کہ پی ایس ایف ڈی کے نظام میں مزید شفافیت لانے کے لیے اس کے ڈیٹا کو عوام اور تمام متعلقہ طبقات کے لئے اوپن کیا جائے اور تربیتی پروگراموں کو زیادہ سے زیادہ خواتین تک وسعت دی جائے۔