سرمایہ کاروں کی بات چیت: سعودی عرب اور پاکستان مشترکہ کامیابی کے رستے پر
سرمایہ کاروں کی بات چیت: سعودی عرب اور پاکستان مشترکہ کامیابی کے رستے پر
ہفتہ 12 اکتوبر 2024 7:05
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح کی سربراہی میں وفد نے بزنس فورم میں شرکت کی۔ فوٹو: اردو نیوز
گزشتہ بدھ کو سعودی عرب کا ایک بڑا وفد پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچا۔ وفد کی قیادت سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح کر رہے تھے جبکہ اس میں سعودی حکومت کے اہم عہدیداران کے علاوہ پچاس بڑی کمپنیوں کے ایک سو انتیس افراد شامل تھے۔
یہ سعودی عرب کے بڑے سرمایہ کاروں کا پاکستان کا سات ماہ میں تیسرا دورہ تھا۔ اس سے قبل اپریل اور مئی میں بھی سعودی وفود پاکستان آئے تھے اور انہوں نے پاکستانی کاروباری برادری سے مشترکہ منصوبوں پر بات چیت کی تھی۔
تاہم تین روز پر مشتمل یہ دورہ جو جمعے کی شام اختتام پذیر ہوا نسبتاً زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوا کیونکہ نہ صرف اس کے دوران 2.2 ارب ڈالر کے ستائیس معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے بلکہ سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح نے اس موقع پر مستقبل میں دونوں ملکوں کی شراکت داری کے چیدہ خطوط بھی بیان کر دیے۔
انہوں نے سعودی پاک بزنس فورم سے اپنے کلیدی خطاب میں واضح کیا کہ اگر ایسے ہی آگے بڑھتے رہے تو بہت جلد ترقی اور خوشحالی میں بڑے حصہ دار بن جائیں گے۔
جن معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں ان میں سیمی کنڈکٹرز کی تیاری، تعمیرات، ٹیکسٹائل، پیٹرولیم، توانائی، ٹرانسپورٹ اور سائبر سکیورٹی کے شعبے شامل ہیں۔
اگرچہ اس سے پہلے بھی دونوں ممالک معدنیات، زراعت اور متبادل توانائی جیسے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کے مواقع ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن اس بار ہونے والی بات چیت میں مزید عملی اقدام پر غور کیا گیا اور ان شعبوں کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فوڈ سکیورٹی میں بھی فوری نوعیت کے عوامل کے زریعے حکومتوں اور نجی اداروں کے مشترکہ منصوبوں کے آغاز کی راہیں تلاش کی گئیں۔
سعودی عرب پاکستانیوں کے لیے مواقع کی سرزمین
سعودی وزیر خالد بن عبدالعزیز الفالح نے پاکستانی کاروباری افراد اور حکومتی زعما کو آگاہ کیا کہ مستقبل میں سعودی عرب کو الیکٹرک گاڑیوں اور الیکٹریفیکیشن کی ضرورت ہے جس کے لیے پاکستان کاپر، ایلومینیم اور تار سازی میں حصہ ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پاکستان کی لامحدود صلاحیتوں سے آگاہ ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس میدان میں پاکستان کے پاس بہترین انسانی صلاحیت موجود ہے اور پاکستانی نوجوان جو سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ سے لے کر کلاوڈ کمپیوٹنگ اور اے آئی کے ماہر ہیں ایک بڑا ڈیٹا ہب بنانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے پاکستانی کاروباری افراد کو دعوت دی کہ وہ سعودی عرب میں دنیا کی بڑی تعمیراتی انڈسٹری میں سامان سپلائی کر کے وہاں ہونے والی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ سعودی عرب آئندہ چند سالوں میں تعمیراتی اور مواد کے حصولی کے لیے 1.8 کھرب ڈالر کے ٹھیکے دینا شروع کر دے گا۔
سالانہ 200 ارب ڈالر کے تعمیراتی، ای پی سی (انجینیئرنگ، کنسٹرکشن، پروکیورمنٹ) اور مواد کی حصولی کے یہ ٹھیکے تعمیراتی سامان کی درآمد کے لیے ہوں گے اور سعودی عرب کی خواہش ہے کہ ان میں سے بیشتر سامان پاکستان سے بھجوایا جائے۔
خالد بن عبدالعزیز الفلاح نے کہا کہ سعودی لوگ پاکستان کی غذائی اجناس بالخصوص چاول، اناج اور گوشت کی تاثیر سے آگاہ ہیں اور پاکستان ان کے ساتھ ساتھ مرغی، مچھلی اور دیگر غذائیں زیادہ مقدار میں سعودی عرب بھجوا کر دنیا اور سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی فوڈ سکیورٹی کے ماحول سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
زیادہ سے زیادہ شعبوں میں شراکت داری کے امکانات کا جائزہ
کاروباری افراد سے ملاقاتوں کے علاوہ سعودی وزیر خالد بن عبدالعزیز الفلاح نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور متعدد وفاقی وزرا سے مشترکہ مواقع پر گفت و شنید کی۔
دورے کے آخری روز انہوں نے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ بات چیت کے لیے پاکستانی وزرا اور دیگر اعلٰی حکام کے ساتھ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس میں پاکستانی حکومت کی نمائندگی وفاقی وزرا مصدق ملک، عبدالعلیم خان، جام کمال خان، محمد اورنگزیب، رانا تنویر، اویس لغاری، احد چیمہ، شزا فاطمہ اور شیخ قیصر نے کی۔
اس موقع پر دونوں اطراف سے مختلف شعبوں میں اشتراک کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئیں۔ اور دونوں ممالک کے اعلٰی حکام نے فوڈ سکیورٹی، آئی ٹی، تعمیرات، معدنیات اور ٹرانسپورٹ میں تعاون کے علاوہ ریلوے اور بحری رابطہ کاری میں اضافے کے بارے میں بھی بات چیت کی۔
اداروں کی ڈیجیٹیلائزیشن اور ای گورننس کے حوالے سے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا خواجہ نے اجلاس کو بریفنگ دی۔ جبکہ وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر مصدق ملک نے مختلف شعبوں میں تعاون کے نئے در کھولنے کی تجاویز پیش کیں جن پر سعودی وفد نے مثبت ردعمل کی یقین دہانی کروائی۔
’پاکستان ایشیا کا بڑا دروازہ ہے‘
لیکن دونوں ممالک کے حکومتی اراکین سے زیادہ پر امید سعودی وفد کے کاروباری اراکین تھے جنہوں نے کئی پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے۔
پاکستان کے جنوبی شہر ملتان کے محمود گروپ کے ساتھ سعودی عرب میں ٹیکسٹائیل مل لگانے کا معاہدہ کرنے والی ریاض کی نجد ہولڈنگ کمپنی کے شراکت دار ڈاکٹر محمد نور خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس کا فائدہ انہیں اور ان کے پاکستانی پارٹنر دونوں کو پہنچے گا کیونکہ سعودی عرب میں پاکستان کی نسبتاً زیادہ سستی کپاس قریبی افریقی ممالک سے منگوائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کی مختلف کمپنیوں سے چار معاہدے کیے ہیں جن میں ٹیکسٹائل ِمل کے علاہ سعودی عرب میں سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار کے علاوہ پاکستان میں ایک پائپ لائن پر کام کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
نورخان سمجھتے ہیں کہ ان معاہدوں کی بدولت دونوں ممالک کے لوگ نہ صرف زیادہ ترقی کریں گے بلکہ پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب بھی آئیں گے۔
ایسے ہی خیالات کا اظہار پاکستان میں ای لرننگ پراجیکٹ کے لیے آلات فراہم کرنے والی کمپنی کلاسیرا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انجینئر محمد بن سہیل المدنی کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ان کی کمپنی ای لرننگ کے منصوبے پر پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹیڈ (پی ٹی سی ایل) کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور اس کے پہلے مرحلے میں اسلام آباد کے تمام سکولوں کو انتہائی جدید آلات فراہم کیے گئے ہیں جبکہ اس منصوبے کے اگلے مرحلے میں پاکستان بھر کے سکولوں کو یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔
پاکستان سے سرجیکل مصنوعات کی درآمد کا معاہدہ کرنے والے سعودی عرب کے آل کیئر میڈیکل گروپ کے سربراہ سلطان المظفر کے مطابق دیگر شعبوں کی طرح طب کے میدان میں بھی دونوں ممالک کے مابین تعاون کے وسیع مواقع ہیں اور انہی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے بڑے سرجیکل مینوفیکچرز ہلبرو گروپ سے 6 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں طبی شعبے میں شراکت داری کے لیے آئے ہیں اور اپنے پارٹنر کے ساتھ مل کر جلد ہی سعودی عرب میں ایک سرجیکل فیکٹری کا آغاز کریں گے۔
سلطان المظفر نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے قوانین کو آسان بنانے کے لیے کی جانے والی تبدیلیوں کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ معیشت میں استحکام، قیمتوں کی کم گنجائش جیسی مثبت خبریں پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک اچھا مقام بنا رہی ہیں۔
’سعودی عرب میں، ہم یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان پورے ایشیا کے لیے ایک بڑا دروازہ ہے۔‘