بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی کی قرارداد منظور، اپوزیشن کی مخالفت
جمعرات 28 نومبر 2024 18:09
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر میر سلیم احمد کھوسہ نے پی ٹی آئی پر پابندی کی قرارداد پیش کی (فائل فوٹو: اے پی پی)
بلوچستان اسمبلی نے حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کرلی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
جمعرات کی شام کو سپیکر کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کی جانب سے ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر صوبائی وزیر میر سلیم احمد کھوسہ نے پیش کی۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ’نو مئی کو ملک گیر فسادات برپا کرنے والی پی ٹی آئی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پرتشدد کارروائیاں کی جارہی ہیں۔‘
’پی ٹی آئی ایک سیاسی انتشاری ٹولے کی شکل اختیار کر چکی ہے، پارٹی کے اس قسم کی انتشاری ایجنڈے نے ملک کے ہر نظام بشمول عدلیہ، میڈیا اور ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔‘
قرارداد کے مطابق ’ایک صوبے کے آئینی وزیراعلٰی کی وفاق کے خلاف محاذ آرائی کی باتیں ملک دشمن قوتوں کا ایجنڈا آگے لے جانے کے مترادف ہے۔‘
’خیبر پختونخوا حکومت کا سرکاری مشینری اور وسائل کے ساتھ وفاق پر جتھوں کی صورت میں اعلانیہ حملہ کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کے غیر سیاسی ایجنڈے کا واضح ثبوت ہے۔‘
اس قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ’اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے خیبر پختونخوا اسمبلی کا سکیورٹی فورسز کے خلاف قرارداد جس میں فورسز کو ٹارگٹ کیا گیا حقائق کے بالکل منافی ہے۔‘
’یه ایوان انتشاری پارٹی کی طرف سے سکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کرنے، میڈیا اور وفاق پر حملہ آور ہونے اور مملکت پاکستان میں انتشار کے عمل کو فروغ دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اپنی فورسز اور مسلح افواج کی خدمات اور مسلسل دی جانے والی قربانیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔‘
اسی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’بلوچستان اسمبلی کا یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں انتشار پھیلانے، افواج پاکستان اور سکیورٹی فورسز کو عوام کے ساتھ براہ راست لڑانے کی کوشش کرنے پر پی ٹی آئی پر فوری طور پر پابندی لگانے کو یقینی بنائے تاکہ اس کی وجہ سےعوام میں پائی جانے والی بے چینی اور تکالیف کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔‘
قائد حزب اختلاف یونس عزیز زہری نے کہا کہ ’جے یو آئی نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کی، وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کا رویہ قابل مذمت ہے لیکن ہم پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت نہیں کریں گے۔‘
جے یوآئی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کی شان نہیں کہ وہ دوسری پارٹی پر پابندی کی بات کرے۔ معاملات مذاکرات سے حل اور سب کو سیاست کے مساوی مواقع دینے چاہییں اور عمران خان کو رہا کیا جانا چاہیے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ انہیں پی ٹی آئی پر پابندی کی قرارداد پر بہت افسوس ہو رہا ہے۔
’ہم نے ان جماعتوں کے ساتھ سیاسی جدوجہد کی۔ ہم نے جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی سے سبق نہیں سیکھا۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کسی دوسری سیاسی پارٹی پر پابندی کی بات کریں گی۔‘
حق دو تحریک کے رکن اسمبلی اور جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا ہدایت الرحمان نے بھی قرارداد کی مخالفت کی اور کہا کہ کارکنوں کے عمل کی سزا پارٹی کو نہیں دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے قتل و غارت گری کی جب ایم کیو ایم پر پابندی نہیں لگی تو پی ٹی آئی پر بھی نہیں لگنی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی بخت محمد کاکڑ نے کہا کہ پہلے جتنی بھی جماعتیں تھیں وہ سیاسی انداز میں مخالفت کرتی تھی۔ گالم گلوچ کی سیاست پی ٹی آئی نے متعارف کرائی۔ ملک اور ریاست ریڈ لائن ہے اسے پار کرنے والوں کے خلاف قرارداد منظور ہونی چاہیے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، نیشنل پارٹی اور حق دو تحریک تحریک نے قرارداد کی مخالفت کی۔
اپوزیشن ارکان قرارداد پر رائے شماری سے پہلے ہی ایوان سے احتجاجاً باہر چلے گئے۔ بعد ازاں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی حمایت سے قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔
بلوچستان اسمبلی میں اس سے قبل مئی 2015 میں متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ یہ قرارداد اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پیش کی تھی۔