Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کو پانی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا ہے: ولی عہد

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ دنیا پانی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں خشک سالی کی بڑھتی ہوئی شرح بھی شامل ہے جو کہ کئی بحرانوں کا باعث بنتی ہے، ان بحرانوں میں قابل استعمال پانی کی کمی، بنجر زمین میں اضافے اور اس کے نتیجے میں انسانی زندگی اور معاشروں کو لاحق خطرات شامل ہیں۔
منگل کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ریاض میں ون واٹر سمٹ کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر کہا کہ ’سعودی عرب نے پانی کے شعبے میں 60 سے زیادہ ملکوں میں 200 ترقیاتی منصوبوں کے لیے چھ ارب ڈالر کے فنڈز فراہم کیے ہیں۔‘
اس تقریب میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں سمیت کئی ملکوں کے سربراہوں اور اعلٰی حکام نے شرکت کی۔
قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف اور متعدد وزرا اور حکام بھی موجود تھے۔
ولی شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ’دنیا کو پانی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر خشک سالی کی شرح میں اضافے کے نتیجے میں انسانی زندگیوں اور معاشروں کو خطرات لاحق ہیں۔‘
ولی عہد نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’بین الاقوامی برادری کی کوششیں پانی کے چیلنجوں سے نمنٹے میں معاون ثابت ہوں گی۔ ہمیں اس شعبے میں مطلوبہ اہداف کے حصول میں مدد ملے گی۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان نے آبی ذرائع کی پائیداری کے لیے مشترکہ منصوبے تیار کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب ورلڈ واٹر کونسل کے تعاون سے ورلڈ واٹر فورم 2027 کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے۔‘
ولی عہد نے گلوبل واٹر آرگنائزیشن کے قیام کا اعلان کیا جس کا مرکزی دفتر ریاض میں قائم کیا جائے گا۔
آرگنائزیشن کے قیام کا مقصد دنیا کو درپیش پانی کے چیلنجز کے بارے میں مطلع کرنا اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہو گا۔
آرگنائزیشن کے تحت عالمی سطح پر پانی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کام کیا جائے گا، علاوہ ازیں جدید ٹیکنالوجیز کے تبادلہ اور مختلف شعبوں میں ہونے والی تحقیق کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کام کیا جائے گا۔
مملکت کی جانب سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور عالمی تنظیموں کے علاوہ نجی شعبوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔
انہو ں نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب نے 2020 میں جی 20 کی صدارت کے دوران پہلی مرتبہ ورک پلان میں پانی کے ایشوز کو شامل کرنے کے لیے کام کیا۔‘
 سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئل میخکواں نے پانی کی مشترکہ ملکیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو پانی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ضروری ہے کہ پانی کے ضیاع کو کم سے کم کرنے کے لیے تکنیکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس حوالے سے نئی ایجادت پر عالمی سطح پر توجہ دی جائے۔‘
فرانسیسی صدر نے پانی کی کمی سے ہونے والے بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلات کے رقبے بھی سکڑ رہے ہیں۔‘
انہوں نے میٹھے پانی کے حوالے سے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’60 فیصد میٹھا پانی سرحدی علاقوں میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوتا ہے، خاص طور پر بہت سے تنازعات بنیادی طورپر پانی کی وجہ سے ہی ابھرتے ہیں۔‘
فرانسیسی صدر نے آبی بحران کے حوالے سے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر چار میں سے ایک شخص کو میٹھا پانی دستیاب نہیں جبکہ ہر دو میں سے ایک کے پاس پانی کے ذخائر مناسب مقدار میں دستیاب نہیں۔ علاوہ ازیں خواتین اور بچے پانی کی تلاش میں سال میں 200 ملین گھنٹے صرف کرتے ہیں۔‘
عالمی بینک کے صدر اجے بنگا نے پانی کے بحران کو ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی حوالوں سے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بھر میں 20 لاکھ سے زائد افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا ’پانی کی عدم فراہمی سے جہاں دیگر مسائل ہیں وہاں عالمی سطح پر غذا کی مسلسل فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے خاص کر دنیا کی تیز رفتار بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں۔‘
قازقستان کے صدر قاسم توقایف نے کہا کہ ’پانی کے چیلنجز میں سیلاب اور طوفان شامل ہیں، جن سے دنیا بھر میں سالانہ ایک اعشاریہ پانچ ارب لوگ متاثر ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے اس حوالے سے ساحلی علاقوں اور جزیروں کو محفوظ بنانے کے لیے پیشگی آگاہی سسٹم کو متعارف کرانے پر زور دیا۔
واٹرسمٹ کی مشترکہ صدارت سعودی عرب، فرانس اور قازقستان کر رہے ہیں اور اسے عالمی بینک کی سپورٹ حاصل ہے۔
سمٹ کا مقصد پانی کے چیلنجوں سے نمنٹے کے لیے جامع انداز میں تبادلہ خیال کرنا، مہارتوں، تجربات اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرنا، پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تحقیق، ترقی اور اختراع کو بڑھانا ہے۔

شیئر: