جنگ بندی کے معاہدے کے بعد حماس نے 471 روز بعد اتوار کو تین اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جبکہ اگلے چند ہفتوں میں درجنوں کی تعداد میں یرغمالی چھوڑے جائیں گے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی سے اسرائیلیوں میں امید کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم بہت سے لوگوں کو یہ خدشات بھی ہیں کہ تین مرحلوں پر مشتمل یہ معاہدہ تمام یرغمالیوں کی رہائی سے قبل ٹوٹ سکتا ہے جبکہ بعض کا یہ خیال ہے کہ مرنے والے یرغمالیوں کی تعداد اندازے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے وقت 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی چھڑنے والی جنگ 15 ماہ تک جاری رہی جبکہ 100 کے قریب یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں
ان کے علاوہ جتنے بھی یرغمالی ہیں یا تو ان کو رہا کر دیا گیا ہے یا پھر ان کی لاشیں مل چکی ہیں۔
اتوار کو جنگ بندی کے معاہدے سے چند گھنٹے قبل اسرائیل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اورون شال نامی شخص کی لاش ملی ہے، یہ وہی سکیورٹی اہلکار تھا جو 2014 میں حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی میں مارا گیا تھا اور لاش جنگجو گروپ کے پاس ہی موجود رہی۔
اتوار کو چھوڑے جانے والے یرغمالیوں میں تین خواتین شامل ہیں۔
رومی گونن
24 سالہ رومی گونن کو سات اکتوبر 2024 کو نووا کے میوزیکل فیسٹیول سے اغوا کیا گیا تھا، حملے کے بعد انہوں نے فون پر اپنے گھروالوں کو بتایا تھا کہ سڑک پر کھڑی بڑی تعداد میں گاڑیوں کی وجہ سے فرار ناممکن ہو گیا ہے اور جھاڑیوں میں پناہ لینے جا رہی ہیں۔
پھر انہوں نے جو کہا وہ ہر روز ان کی والدہ کے کانوں میں گونجتا رہا۔
’گاڑی پر گولیاں چلائی گئی ہیں، مجھے گولی لگی ہے، خون بہہ رہا ہے، مجھے لگتا ہے میں مرنے والی ہوں۔
اغوا کے چند ہفتے بعد ان کی والدہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’میں نے انہیں بتایا کہ تم نہیں مر رہی ہو، تیز تیز سانس لو۔‘

ان کے مطابق ’اس کے بعد میں نے رومی کے منہ سے لفظ ممی سنا، پھر جیسے جیسے گولیاں چلنے اور مردوں کے چلانے کی آوازیں تیز ہوتی گئیں سب کچھ ڈوبتا چلا گیا۔‘
اس کے بعد فون بند ہو گیا، سیکورٹی حکام نے ان کے فون کی لوکیشن غزہ میں ٹریس کی۔
15 ماہ کے دوران رومی کی والدہ میرا گونن یرغمالیوں کے لیے اٹھائی گئی آوازوں میں سب سے زیادہ توانا رہی، وہ تقریباً روز ہی اسرائیلی میڈیا پر دکھائی دیتی رہیں اور اس دوران بیرون ملک کے سفر بھی کیے۔
انہوں نے حماس کے حملے کو چھ ماہ پورے ہونے کے موقع پر اے پی کو بتایا تھا کہ ’ہم جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں تاکہ دنیا اس معاملے کو بھولے نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ہر روز اٹھنے کے بعد ہم ایک گہری سانس لیتے ہیں اور چلنا شروع کر دیتے ہیں، تاکہ کچھ ایسا کیا جائے کہ بیٹی کی واپسی ممکن ہو سکے۔‘
ایمیلی دمری
28 سالی ایملی دمری اور اسرائیلی نژاد برطانوی شہری ہیں اور ان کو بھی حماس کے حملے کے بعد ان کے اپارٹمنٹ سے اغوا کیا گیا جو کہ غزہ کے قریب کیبتز فار عزیٰ کیبٹز کے علاقے میں تھا۔
دمری کی والدہ مینڈی نے ان کے بارے میں بتایا تھا کہ ’انہیں میوزک، سیاحت، فٹ بال اور ہیٹس پسند ہیں، انہوں نے دوستوں کے گروپ کو گوند کی طرح جوڑ کر رکھا تھا اور اکثر دوستوں کے ساتھ پارٹیز کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔

ایملی کی رہائی پر مینڈی نے ساتھ دینے والوں کا شکریہ ادا کیا۔
’میں شکرگزار ہوں ان لوگوں کی جنہوں نے ایملی کے نام کی گردان بند نہیں کی اور 471 روز بعد بالآخر وہ گھر پر ہیں۔‘
ڈورون سٹینبیچر
31 سالہ ڈورون سٹینبیچر ایک ویٹرنری نرس ہیں، جو جانوروں سے بہت پیار کرتی ہیں اور کیبتز عزیٰ میں ایملی دمری کے گھر کے قریب رہتی ہیں۔
ان کے پاس اسرائیلی اور رومانیہ کی شہریت موجود ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو انہوں نے صبح 10 بج کر 20 منٹ پر والدہ کو فون کر کے کہا کہ ’مام مجھے ڈر لگ رہا ہے، میں بیڈ کے نیچے چھپی ہوئی ہوں اور وہ میرے اپارٹمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ڈورون کے بھائی ڈور نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پھر انہوں نے اپنے دوستوں کو وائس میسیج بھیجا جس میں وہ بار بار کہہ رہی تھی، کہ ’انہوں نے مجھے پکڑ لیا ہے۔‘
26 جنوری 2024 کو حماس کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں ڈورون بھی اسرائیل کی خواتین اہلکاروں کے ساتھ دکھائی دی تھیں، جس کے بعد ان کے بھائی نے کہا تھا کہ اس ویڈیو سے ان کو نئی امید ملی ہے کیونکہ وہ زندہ ہے، تاہم وہ بہت کمزور لگ رہی تھی۔
جنگجوؤں کی جانب سے کیبتز فار عزیٰ میں مارے گئے 64 افراد میں سے 22 سکیورٹی اہلکار تھے اور وہاں سے 19 افراد کو اغوا کیا گیا تھا۔

ایملی دمری اور ڈورون کی رہائی کے بعد کیبتز فار عزیٰ کے تین افراد اب بھی قید میں ہیں۔
ان میں اسرائیلی نژاد امریکی 65 سالہ کیتھ سائیگل اور 27 سالہ گیلی اور ویز برمین شامل ہیں، جو کہ جڑواں ہیں۔
اورون شال کی باقیات
اورون شال 20 جولائی 2014 کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جھڑپ میں مارے گئے تھے، تاہم ان کی اور ایک اور ساتھی کی لاش جنگجوؤں نے اپنے پاس رکھی تھی اور عوامی سطح پر لاش کی واپسی کے لیے مہم کے باوجود بھی واپس نہیں کی تھی۔
قیدیوں کے رشتہ داروں کی تنظیم ’دی ہوسٹیجز فیملیز فورم‘ نے اورون شال کی فیملی کو کو اپنا ’اٹوٹ حصہ‘ قرار دیا۔
عسکریت پسندوں کے پاس اب بھی اورون کے ساتھ مارے جانے والے گولڈن اور دوسرے دو فوجیوں کی باقیات موجود ہیں جو 2014 اور 2015 میں غزہ کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔