Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض کی میزبانی میں امریکی، روسی قربت، یوکرین مرکزی موضوع

’آج مذکرات پوٹن اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والی آئندہ ملاقات کی تیاری کے طور پر ہیں‘ ( فوٹو: واس)
سعودی دارالحکومت ریاض آج منگل کو امریکی، روسی وزرائے خارجہ سمیت اعلیٰ عہدیداروں کا اہم اجلاس ہوگا جس کا مقصد ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو فروغ دینا اور یوکرین پر مذاکرات کے باضابطہ آغاز کی بنیاد رکھنا ہے۔
العربیہ کے مطابق یہ اقدامات روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سعودی عرب میں ہونے والی آئندہ ملاقات کی تیاری کے طور پر کئے جا رہے ہیں جیسا کہ دونوں ممالک نے اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب میں روس، امریکہ مذاکرات کی میزبانی محض اتفاقیہ نہیں تھی اور نہ ہی ریاض کو ٹرمپ اور پوٹن کے متوقع اجلاس کے لیے بے ترتیب منتخب کیا گیا تھا بلکہ اس اقدام نے سعودی دارالحکومت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ، اس کی اسٹریٹجک غیر جانبداری اور عالمی ثالث کے طور پر اس کے کردار کو نمایاں کیا جیسا کہ خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ نے رپورٹ کیا ہے۔
دنیا میں خام تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کے طور پرسعودی عرب نے تیل کی پالیسی کے حوالے سے روس کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے۔
 نیز فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سعودی عرب نے خود کو ثالث کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس کے ساتھ سعودی عرب نے یوکرین کے ساتھ بھی قریبی تعلقات برقرار رکھے اور یوکرینی صدر ولودیمير زيلنسكی کو متعدد بار خوش آمدید کہا۔
 زيلنسكی نے مئی 2023 میں جدہ میں منعقدہ عرب لیگ سربراہ اجلاس میں شرکت کی اور جون میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے۔

’ریاض کے اثر و رسوخ، اس کی غیر جانبداری اور عالمی ثالث کے طور پر اس کا کردار نمایاں ہے‘ ( فوٹو: واس)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ زيلنسكی کل بدھ کو سرکاری دورے پر دوبارہ ریاض آرہے ہیں تاہم ان کے ترجمان نےکہا ہے  کہ وہ روسی یا امریکی حکام سے ملاقات کا ارادہ نہیں رکھتے۔
سعودی عرب نے اس جنگ میں غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا اور تنازع کے فریقوں کے درمیان مفاہمت کے لیے جگہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔
سعودی عرب نے ستمبر 2022 میں یوکرین میں قید غیر ملکی جنگجوؤں کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا جن میں دو امریکی اور 5 برطانوی شہری شامل تھے۔
اسی طرح اگست 2023 میں سعودی عرب نے جنگ سے متعلق مذاکرات کی میزبانی کی جس میں 40 سے زائد ممالک کے نمائندے شریک ہوئے تاہم روس اس اجلاس کا حصہ نہیں تھا۔

شیئر: