Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے الشرقیہ ریجن میں دستکاروں کی سنہری وراثت

زیورات بنانے کے نازک اور پیچیدہ فن کو نسل در نسل منتقل کیا جا رہا ہے ( فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب کا الشرقیہ ریجن تاریخی طور پر سونے کے زیورات بنانے کا مرکز رہا ہے۔
صدیوں سے الاحسا اور قطیف میں اس کام سے منسلک خاندان سونے کے زیورات بنانے کے نازک اور پیچیدہ فن کی روایت کو نسل در نسل منتقل کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف خطے کی ثقافتی شناخت قائم و دائم ہے بلکہ اس سے کاروبار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مملکت میں معاشی تبدیلی کی جو لہر آئی ہوئی ہے، اس کے باعث کچھ دستکار اگرچہ سونے کی تجارت یا دیگر شعبوں سے وابستہ ہو گئے ہیں لیکن بہت سے کاریگر اب بھی اس ہنر سے جڑے ہوئے ہیں۔
محمد الحمد الشرقیہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی ’گولڈ اور جیولری‘ کمیٹی کے سابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے سعودی پریس ایجنسی سے ایک انٹرویو کے دوران اس پیشے میں ہونے والی تاریخی ترقی کے محرکات کے بارے میں گفتگو کی ہے۔
محمد الحمد سونے کی صنعت اور تجارت کرنے والے افراد کی طویل فہرست میں شامل ہیں۔ انہوں نے ان روایتی طریقوں کے بارے میں بتایا جنہیں استعمال میں لا کر بنیادی نوعیت کے اوزاروں کے ساتھ سونے کو مختلف شکلوں میں ڈھالا جاتا تھا۔
روایتی طور پر سونے کو چمڑے کی بنی ہوئی دھونکنی استعمال کر کے دہکتے کوئلوں پر پگھلایا جاتا تھا۔ اس کے بعد ہتھوڑے اور سندان کے ذریعے، جو اس صنعت کے مبادی اوزار کہلاتے تھے، سونے کو شکل دی جاتی تھی۔

 بہت سے کاریگر اب بھی اس ہنر سے جڑے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: ایس پی اے)

محمد الحمد بتاتے ہیں ابتدائی زمانے کے سُنار نہ صرف ہنرمند کاریگر تھے بلکہ سونے کے کاروبار میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ دکان پر آنے والے گاہکوں سے براہِ راست بات چیت کیا کرتے تھے اور اپنے ہنر سے تخلیق کردہ زیورات فروخت کرنے کے علاوہ، لگے بندھے گاہکوں کی طرف سے لائی گئی قیمتی دھاتوں کو نئی شکلوں میں بھی ڈھالتے تھے۔
ان میں سے کچھ سُنار دور دراز تک سفر کر کے استعمال شدہ سونے، چاندی اور روایتی لباس کا لین دین کرتے تھے جس میں سونے کی کشیدہ کاری ہوتی تھی۔ آج کل ناپ تول کے لیے سونے کے وزن کا پیمانہ گرام ہے لیکن پرانے زمانے میں سونے کا لین دین کرنے والے روایتی طریقوں سے وزن کرتے تھے۔
کاروبار عموماً بھروسے کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا اور سونا اکثر اوقات ادھار بیچا جاتا جبکہ گاہک، زیوارت میں تبدیلی یا مرمت کے لیے سُنار پر اعتماد کیا کرتے تھے۔
انہیں یاد ہے کہ بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ جاتے تھے جو دس تولے (ایک سو سولہ گرام)  وزن کا ڈھلا ہوا سونا 600 سعودی ریال میں خریدتے تھے جو اس وقت ایک بڑی رقم تصور کی جاتی تھی۔

دستکار اکثر کام کے لیے خصوصی اوزار خود بناتے تھے (فوٹو: ایس پی اے)

انٹرویو کے دوران انہوں نے 200 سال سے زیادہ قدیم اُس قانونی دستاویز کا ذکر بھی کیا جو اب یادگار کا درجہ رکھتی ہے جس میں سونے کے تسمے والی پاپوش کی فروخت کا ریکارڈ درج ہے۔ یہ دستاویز اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب کے الشرقیہ ریجن میں سونے کی صنعت و حرفت کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔
محمد الحمد کہتے ہیں کہ ’دستکار اکثر کام کے لیے خصوصی اوزار خود بناتے تھے اور انہیں نمائش کے لیے ایک روایتی ڈبے میں رکھا جاتا تھا۔‘
جوں جوں سعودی عرب کی معیشت میں نمُو اور تنوع ہوا ہے، بہت سے سُنار سونا بنانے کے کام سے دور ہوئے ہیں۔ کچھ نے دکانیں کھول لی ہیں، کچھ ورکشاپ میں کام کر رہے ہیں اور بعض فیکٹریوں میں چلے گئے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہیں قومی کمپنیوں میں مواقع دستیاب ہوگئے ہیں یا وہ حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ’ ان کی نسل، دستکاری اور سونے کی تجارت کے نئے دور کے بیچ ایک پُل کا کام کر رہی ہے۔‘

موجودہ دور میں بڑے زیورات تیار کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

جعفر الناصر نے امریکہ سے الیکٹریکل انجینیئرنگ میں گریجویشن کی ہے اور ان کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کی سونے کی صنعت اور حرفت سے منسلک وراثت کو آگے بڑھائیں گے۔
انھوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ایک فیکٹری تعمیر کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سونے کی صنعت اور تجارت میں ڈرامائی طور پر تبدیلی آئی ہے جس کا تعلق مملکت میں معاشی، ثقافتی اور سماجی تبدیلیوں خصوصا سعودی عرب کے بین الاقوامی ثقافتوں سے زیادہ میل جول سے ہے۔‘
اس تبدیلی نے صارفین میں غیرمعمولی اور نادر قسم کے ڈیزائنوں کی مانگ میں اضافہ کیا ہے لہذا سناروں کو بھی حوصلہ ملا ہے کہ وہ اختراع کے لیے جدید مشینوں کو استعمال میں لائیں۔

جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ایک فیکٹری تعمیر کی گئی ہے ( فوٹو: عرب نیوز)

الناصر کے مطابق’ سونے کے قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے سونے کی صنعت کو نقصان پہنچایا ہے۔‘
’اب بڑے زیورات تیار کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے لہٰذا ڈیزائنر ہلکے زیوارت تیار کرنے پر مجبور ہیں۔ آج کل سونے کا کام کرنے والوں کی توجہ اور اصل مقصد کم وزن زیورات پر ہو گیا ہے۔‘
جعفر الناصر کہتے ہیں کہ ’سونے کی کاریگری اور عملییت پسندی کے درمیان ایک نازک سا توازن ہی اس روایتی فن کو آگے بڑھا رہا ہے۔‘

 

شیئر: