سعودی عرب کے قومی مرکز برائے جنگلی حیات نے بحیرۂ احمر میں جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام پر تحقیق کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس تحقیق میں زیرِ آب حیات کا بغور جائزہ لیا گیا، اس کا ایک مقصد مملکت میں قدرتی وسائل کے لیے کی جانے والی کوششوں کا تحفظ بھی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب سمندری حیات کے تحفظ اور بحالی کے لیے پر عزمNode ID: 580751
-
مرجان کی چٹانوں اور سمندری حیات سے بھرپور جزائر فرسانNode ID: 602566
سائنس دانوں نے ماحولیاتی حساسیت کے ذریعے پانی کے نیچے ان مقامات کی درجہ بندی کی، جہاں حیات کی مختلف انواع کو خطرہ در پیش ہو سکتا تھا۔ ان جگہوں کو ترجیح دی گئی جہاں آبی حیات کو سنگین خطرات تھے۔
ساحل کے ساتھ ساتھ 64 مقامات پر سروے کیے گئے جن کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ وہاں آبی حیات کی مختلف انواع کی مجموعی صحت کیسی ہے۔
37 مقامات پر پانی کے درجۂ حرارت کی پیمائش کی گئی تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ جہاں پانی کا درجۂ حرارت زیادہ ہوتا ہے وہاں جنگلی حیات پر کس طرح کے اثرات پڑتے ہیں۔
جنگلی حیات کے قومی مرکز کے سی ای او محمد قربان نے بتایا کہ ’یہ سٹڈی سعودی عرب کے سبز ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ ہے جس کا مقصد مملکت میں ماحولیاتی پائیداری کا حصول ہے۔‘
انھوں نے سروے کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کی اور بتایا ’یہ جنگلی حیات کے قدرتی ٹھکانوں میں کسی تبدیلی کو جاننے کا انتہائی اہم ذریعہ ہیں، کیونکہ ان کا پتہ چلانے کے بعد ہی مختلف تنظیمیں مسائل کا حل ڈھونڈتی ہیں۔‘
ایک بیان میں جنگلی حیات کے قومی مرکز نے کہا کہ ’وہ سال بھر اس طرح کی تحقیق کے دیگر مطالعے اور پروگرام جاری رکھےگا تاکہ مملکت میں جانوروں اور پودوں کے یکجا ہونے سے پیدا ہونے والا توازن محفوظ رہے۔‘
بحیرۂ احمر میں کئی اقسام کی جنگلی حیات پائی جاتی ہے جن میں وہیل، ڈولفن، شارک اور سمندری سانپ بھی شامل ہیں۔
اس ہفتے بحیرۂ احمر میں دنیا کی سب سے بڑی مرجان کی چٹانوں کا پتہ چلا ہے۔ توقع ہے یہ چٹانیں بحیرۂ احمر گلوبل کے زیرِ انتظام سیاحوں کی دلچسپی کا سب سے پسندیدہ مقام بن سکتی ہیں ہے جو ماحول دوست بھی ہوگا۔
اس ماہ کے اوائل میں سائنس دانوں کو ایسے جانوروں کا پتہ چلا تھا جو بحیرۂ احمر کےگہرے پانی میں بظاہر غیر موافق حالات میں رہتے ہیں جہاں آکسیجن کی مقدار بھی کم ہے اور تیزابیت بہت زیادہ ہے۔
جنگلی حیات کے قومی مرکز کی طرف سے ایسے مقامات کی سیٹلائٹ کے ذریعے ٹریکنگ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف انواع کے جانوروں کے قدرتی ٹھکانوں کو بچانے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔