Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرجان کی چٹانوں اور سمندری حیات سے بھرپور جزائر فرسان

آثار قدیمہ کے ذخائر نے یہاں آنے والے سیاحوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
مرجان کی شاندار چٹانوں، عمدہ ساحلوں اور جنگلی حیات کی نایاب اقسام کے ساتھ  فرسان کے جزائر جو کہ سعودی عرب کی جنوب مغربی بندرگاہ سے  منسلک شہر جازان کے قریب واقع ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق یہ جزائر طویل عرصے سے سمندری سیاحت میں سرمایہ کاری کا مرکز رہے ہیں کیونکہ سعودی عرب اپنے قدرتی ورثے کے پرکشش مقامات کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
فرسان کے جزائر کی سمندری پناہ گاہ 1980 کی دہائی کے آخر میں قائم کی گئی تھی اور اس کے انتظامی امور کے نگران عیسیٰ شویلان نے عرب نیوز کو بتایا ہےکہ یہ علاقہ تقریباً 350 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
شویلان نے مزید کہا کہ یہاں کے دیگر وسائل فرسان کے ہرن، سمندری کچھوے، خاص قسم کے درخت اور مینگرووز شامل ہیں۔
بحیرہ احمر کے اس جزیرے کو مستقبل کے اہم سیاحتی مقام اور جنگلی حیات کی پناہ گاہ کے طور پر یونیسکو کے عالمی نیٹ ورک میں شامل کرنے سے فروغ ملا ہے۔
سعودی عرب کے یہ جزیرے 21 ممالک کے 20 نئے مقامات میں شامل ہیں جو حیاتیاتی تحفظ، ماحولیاتی علم، تحقیق اور مستحکم ترقی کو یقینی بنانے کے لیے درج کئے گئے ہیں۔
جزائر فرسان کا یونیسکو پروگرام کے تحت فہرست میں شامل ہونا   وسیع کوششوں کا نتیجہ ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مملکت کے ثقافتی اور ورثہ سے متعلق مقامات کو علاقائی اور بین الاقوامی فورم پر تسلیم کیا جائے۔

النجدی مسجد 1928 میں تعمیر کی گئی جوتاریخی عمارتوں میں شامل ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

یونیسکو کی فہرست میں شامل ہونے سے ان جزائر کے قدرتی اور آثار قدیمہ کے خزانوں کو عالمی تحفظ ملے گا۔
اس علاقے میں جو جزیرے آباد ہیں ان میں فرسان الکبری میں حکومتی اداروں اور خدمات کے محکموں کے ساتھ ساتھ کئی ہوٹل اور اپارٹمنٹس موجود ہیں جو سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔
 ساجد اور قمع کے جزیرے جو فرسان الصغری یا چھوٹے فرسان پر ہیں۔ یہ جزائر 70 کلومیٹر طویل اور20 تا 40 کلومیٹر چوڑے ہیں۔
ماضی میں یہاں پر ماہی گیروں کے لیے مچھلی پکڑنا  زندگی گزارنے کا ذریعہ تھا جو اب فرسان کے عوام کے لیے ذریعہ معاش کے بنیادی ذرائع میں شامل ہے اور اب ایک اہم پیشہ ہے۔
قدرتی اورآثار قدیمہ کے وسائل، مرجان کی چٹانوں اور مچھلیوں کے ذخائر نے یہاں آنے والے سیاحوں، تاجروں اور ماہی گیروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔
آثار قدیمہ کے سیاحتی مقامات میں وادی مطر شامل ہے جو فرسان الکبری کے جنوب میں واقع ہے۔ اس علاقے میں بڑی بڑی چٹانیں ہیں، قدیم گاؤں میں پتھر کی باقیات ہیں اور ایک پرانے قلعے جیسے کھنڈرات ہیں۔

فرسان کے جزائر اپنی وسیع اور منفرد شناخت کے باعث مشہور ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)

سعودی مؤرخ اور صحافی ابراہیم مفتاح نےعرب نیوز کو بتایا ہےکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فرسان کچھ عرصہ پہلے تک غیر آباد تھا لیکن تاریخی شواہد دوسری صورت دکھاتے ہیں۔
مصر کے آثار قدیمہ کے ماہر اور سابق وزیر مملکت برائے نوادرات امور زاہی حواس نے لکھا  ہے کہ حالیہ مطالعہ نے ثابت کیا ہے کہ یہ علاقہ پتھر کے زمانے سے ہزاروں سال پہلے آباد تھا۔
ان  جزیروں کے باشندے مہذب تھے اور آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جہاز رانی میں ماہر تھے اور سمندری راستے سے مشرق اور مغرب کے ممالک کا سفر کرتے تھے۔
قدیم مقبرے جزیرہ قملہ پر جرمل ہاؤس کے قریب واقع ہیں اس کے ساتھ تاریخی عمارتیں بھی ہیں جو اس وقت کے منفرد فن تعمیر کے انداز سے مطابقت رکھتی ہیں۔
یہاں پر موجود النجدی مسجد 1928 میں تعمیر کی  گئی جو کہ اس جزیرے پر موجود کئی تاریخی عمارتوں میں شامل ہے۔
جزائر فرسان اپنی وسیع اور منفرد شناخت کے باعث مشہور ہیں یہ منفرد شناخت انہیں مملکت کے دیگر ذخائر سے ممتاز کرتی ہے۔
 

شیئر: