سعودی عرب میں رہنے والے امریکیوں کو گھر سے دور ایک اور گھر مل گیا ہے۔ جس سے دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان بننے والے پائیدار تعلق کی عکاسی ہوتی ہے۔
عرب نیوز سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطے کے دورے سے قبل چار ایسے امریکی شہریوں نے بات کی ہے جو مملکت میں رہائش پذیر ہیں اور بتایا ہے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔
ڈی کیو لیونگ میگزین کی شریک بانی ماریہ کومیٹی دارالحکومت ریاض میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تحفظ، معاشی مواقع اور معاشرے کی مضبوط اخلاقی ساخت میرے لیے ان بڑے فوائد میں سے ہیں جو یہاں ملے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
امریکی صدر ٹرمپ مشرق وسطی کے اہم دورے پر سعودی عرب کے لیے روانہNode ID: 889591
ان کے مطابق ’ہماری اولین ترجیح اپنے خاندان کی صحت اور تحفظ ہے اور یہ بنیادی چیز ہے۔ سعودی عرب میں صحت کی دیکھ بھال کافی سستی ہے، جس سے کافی فرق پڑتا ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ایک سعودی شہری سے شادی کی اور میں ہمارے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات پر شکرگزار ہوں۔‘
اسی طرح ایک کمپنی کی ایگزیکٹیو ہینا نیمک 2015 میں 24 سال کی عمر میں مملکت میں آئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں سعودی عرب آئی تو یہاں ملازمتوں میں خواتین کی شرح 20 فیصد سے کم تھی جس کی وجہ سے میں اکثر میٹنگز میں شریک ہونے والی واحد خاتون ہوتی۔‘

پچھلے برس کے اواخر میں ملازمتوں میں خواتین کا تناسب 36 فیصد تک پہنچا جو کہ ویژن 2030 کے ہدف سے بھی زیادہ ہے جو کہ 30 فیصد تھا اور وہ 10 سال قبل طے کیا گیا تھا۔
ہینا نیمک کا کہنا ہے کہ ’یہاں آنے کے بعد سے ہر روز ہی مجھے خوشگوار حیرت دیکھنے کو ملی ہے جن میں سعودی باشندوں کی مہمان نوازی اور ویژن 2030 کے اہداف کے لیے کام کی لگن شامل ہے۔
ان کے مطابق ’ذاتی طور پر سعودی ویژن 2030 کے تحت یہاں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ میرے لیے ایک جذباتی تجربہ رہا ہے۔‘
مملکت نے اپنے ہاں کاروبار کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھول رکھے ہیں جس سے غیرملکیوں اور مقامی لوگوں دونوں کے لیے ہی ملامت کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

اسی طرح ایک اور امریکی شہری سمیر شمس کا کہنا ہے کہ ’میں ریاض میں 15 برس سے زائد کے عرصے سے رہائش پذیر ہوں اور بھرپور ثقافت کے ساتھ ساتھ تحفظ، جدید انفراسٹرکچر، کم خرچ میں اچھی زندگی گزارنے اور دیگر منفرد تجربات کا لطف بھی اٹھایا۔‘
ان کے مطابق ’سعودی کیریئر کے لیے بہترین مواقع فراہم کر رہا ہے خصوصاً ان سیکٹرز میں جو فروغ پا رہے ہیں۔
سمیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات تیل اور دفاع سے جدید ٹیکنالوجی کی طرف بڑھے ہیں، جن میں اے آئی اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع شامل ہیں اور ان چیزوں کی جھلک ریاض میں ہونے والے سعودی امریکہ انویسٹمںٹ فورم میں بھی دکھائی دی۔

ان کے مطابق ’ایسے ایونٹس نے ٹاپ کاروباری قیادت کو اپنی طرف متوجہ کیا اور عوام کے عوام سے تعلق کو بھی آمضبوط کیا ہے۔‘
ڈینیئل ٹیلبوٹ بھی ان امریکیوں میں سے ہیں جو سعودی عرب میں رہ رہے ہیں اور کافی متاثر دکھائی دیتے ہیں وہ مملکت کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں واٹر ڈی سیلینیشن ٹیکنالوجی کی پڑھائی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنی تعلیم 2024 میں شروع کی تھی اور اس کو اپنے گھر کے طور پر دیکھتا ہوں۔‘
’یہ وہ ملک ہے جس کو میں نے اور میری فیملی نے چار سے پانچ سال تک قیام کے لیے منتخب کیا ہے اور اس دوران میں میں ماسٹر ڈگری اور پی ایچ ڈی مکمل کروں گا۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرا ماننا ہے کہ سعودی لوگ مشرق وسطیٰ کے مسقتبل کی نمائندگی کرتے ہیں مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں بھی اس میں چھوٹا سا کردار ادا کر رہا ہوں۔‘