طائف میں گلاب کا سیزن اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ گلاب کے کاشتکار اُن چیلنجز پر غور کر رہے ہیں جن کا انھیں اِس برس سامنا ہوا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق طائف میں موسمِ گلاب اس علاقے کا انتہائی اہم زرعی اور سیاحی ایونٹ ہے جو بہار کی آمد کا اعلان بھی ہے۔
جیسے ہی گلابوں کا موسم آتا ہے، الہدا اور الشفا کے ساتھ ساتھ طائف میں پہاڑوں کے دامن میں ہر جگہ گلاب ہی گلاب ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب میں گلاب کی پیداوار بڑھانے کےلیے نئی حکمت عملی تیارNode ID: 878990
-
طائف کے گلابوں کا یونیسکو کے’ ثقافتی ورثے‘ میں اندراجNode ID: 882563
یہ گلاب پورے کے پورے منظر کو حیرت انگیز گلابی رنگ میں بدل کے رکھ دیتے ہیں اور علاقہ، گلاب کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔
اب جبکہ گلاب کا موسم ختم ہو گیا ہے، ان پھولوں کے کاشتکار دن رات تگ و دو سے گلاب کی آخری بہار کی کاشت میں مصروف ہیں۔
گلاب کا عرق تیار کرنے والے پلانٹ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور گلاب کے اندر سے خوشبو سے نم قیمتی آخری قطرے نچوڑ رہے ہیں اور بوتلوں میں بھر رہے ہیں۔
ہر بوتل تقریباً 12 ہزار گلابوں سے تیار ہوتی ہے اور تقریباً 1800 سعودی ریال میں فروخت ہو جاتی ہے جو لگ بھگ 480 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
موسمیاتی چیلنجز کے باوجود جنھوں نے اس بار گلاب کی فصل کو متاثر بھی کیا ہے، طائف کے گلاب اپنے مقام کو آج بھی محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
اونچے اونچے پہاڑوں کے بیچوں بیچ، گلاب کے پودوں کی ہموار سطحیں ہیں جن کا انتظام عبداللہ الطلحی کے ہاتھ میں ہے۔

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے گلاب کی کاشت کی موجودہ صورتِ حال اور اس کی معاشی حیثیت پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے بتایا ’موجودہ سیزن سے قبل اُس زمانے میں بارشی ہوئی جب ’گلاب زمین کی گود میں سو رہے ہوتے ہیں۔ بارش نے گلاب کی کاشت اور قیمت دونوں کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔‘
گلاب کے سیزن کا ایک مخصوص دور ہوتا ہے جو گلاب کی ٹہنیوں کی کانٹ چھانٹ اور تراش خراش سے شروع ہوتا ہے۔
اس سیزن کے شروع ہونے کے بعد اگر چالیس دن کے اندر اندر بارش ہو جائے، جب گلاب فطری طور پر خوابیدہ ہوتا ہے، تو پھر گلاب کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کیونکہ اس مرحلے میں گلاب کو پانی کی نہیں بلکہ خشک موسم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وقت آنے پر اس کی شاخیں پھولوں سے لد جائیں۔
عبداللہ الطلحی کہتے ہیں کہ غیرمتوقع بارش کے موسم سے اس برس ایک بہت بڑا چیلنج پیش آیا جس نے گلاب کی باقاعدگی یا آہنگ کو خراب کیا۔ اس خرابی کے باعث شگوفے کمزور پڑ گئے اور کلیاں وقت سے پہلے کھِل گئیں۔ چنانچہ گلاب کے کھلنے کا زمانہ مختصر رہ گیا اور پیداوار میں مجموعی طور پر کمی دیکھنے کو آئی۔

ان کا کہنا تھا ’کاشکاروں کے لیے گلاب کا سیزن ایسا ہی ہے جیسے سونے کی کاشت ہو۔ لیکن غلط وقت پر ہونے والی بارش سے نقصان بڑھ کر دو گنا ہو جاتا ہے۔‘
پیدوار کم ہونے سے طائف میں گلاب کے عطر کی قیمت بھی بڑھ گئی جو گزشتہ برس سے 600 سعودی ریال زیادہ ہے۔
عبداللہ الطلحی کے مطابق آب و ہوا میں کوئی بھی غیر متوقع تبدیلی اس نازک زرعی شعبے کے لیے بڑا سخت خطرہ بن جاتی ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’اس علاقے کے کلچر کا تحفظ کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کے بقول ’طائف کا گلاب تو ہماری پہچان ہے۔‘
حامد السفیانی الشفا گلاب کے تاریخی کھیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے طائف کے گلابوں سے بننے والی اشیا کی روز افزوں عالمی شہرت کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ’ یہ اشیا دنیا کے بہترین اور انتہائی مہنگے پرفیوم بنانے میں استعمال ہوتی ہیں اور خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی برآمد کی جاتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’سال ہا سال سے گلاب کے عطر کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسے دنیا میں سب سے خالص اور سب سے قیمتی عطر تصور کیا جاتا ہے۔ عطر کی صرف ایک بوتل بھرنے کے لیے 12 ہزار گلاب درکار ہوتے ہں۔ان میں سے ہر گلاب کو احتیاط کے ساتھ ہاتھ سے چُنا جاتا ہے۔‘
حامد السفیانی کہتے ہیں کہ طائف کے گلاب کو بین الاقوامی نمائشوں اور زرعی فیسٹول میں رکھا گیا ہے۔ ’میں نے خود باہر کے ممالک میں اس سلسلے میں ہونے والے ایونٹس میں شرکت کی ہے اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں گلاب کے شائقین کس طرح اس پھول کا تعلق طائف سے جوڑتے ہیں۔ یہ نیک نامی اور ساکھ راتوں رات نہیں بنی۔ اس میں کاشتکاورں کی برسوس کی محنت اور مختلف تنظیموں کا تعاون شامل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’اس ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف یکساں کوالٹی قائم رکھنا بلکہ عطرسازی میں ہونے والی ترقی، اس کے تحفظ کے طریقوں اور مارکٹینگ سے باخبر رہنا بھی بہت ضروری ہے۔‘
انھوں نے حکومتی ادراوں پر زور دیا کہ وہ طائف کے گلابوں کی ثقافتی اور معاشی اہمیت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے، کاشتکاروں کے لیے مدد و تعاون میں اضافہ کریں۔