اُس کی زندگی میں کئی بار ایسے مواقع آئے جب وہ ہار مان سکتی تھی، مگر وہ ڈٹی رہی۔
اس نے نہ تو اپنے قدامت پسند سسرال کے سامنے سرنگوں کیا اور نہ اُس وقت شکست تسلیم کی جب ایک چاقو بردار حملہ آور نے اُس کی جان لینے کی کوشش کی اور وہ اُس وقت بھی دباؤ میں نہیں آئی جب اُس کی اپنی ہی کمیونٹی نے اُس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔
مزید پڑھیں
-
کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں انڈین فوجی ہلاکNode ID: 890020
یہ وہ عزم و حوصلہ تھا جس نے بانو مشتاق کو اس سال کا عالمی بُکر پرائز دلوایا ہے۔
وہ کنڑ زبان کی مصنفہ ہیں جب کہ اُن کے ساتھ ان کی کہانیوں کی مترجمہ دیپا بھاستی کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ یوں بانو مشتاق پہلی مسلمان اور دوسری انڈین خاتون ہیں جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔
بانو مشتاق کے مجموعے ’ہارٹ لیمپ‘ میں اُن کے 12 افسانے شامل ہیں جو انہوں نے سنہ 1990 سے 2023 کے درمیان لکھے جن میں انہوں نے مسلمان، دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات کی عورتوں کی زندگی کی کہانیوں کو اپنے قلم کے ذریعے آواز دی ہے، وہ آواز جو پدرسری سماج میں نظرانداز کر دی جاتی ہے، وہ آواز جسے دبانا ہمیشہ سے آسان رہا ہے، وہ آواز جو دبی دبی سرگوشیوں میں، سسکیوں میں کہیں فضا میں گھل مل جاتی ہے۔
بانو مشتاق کے لیے مگر ایسا ممکن نہیں تھا جیسا کہ وہ خود کہتی ہیں کہ ’اس کتاب نے اس یقین سے جنم لیا ہے کہ کوئی بھی کہانی معمولی نہیں ہوتی کیوں کہ انسانی تجربات کی رنگ برنگی چادر میں ہر دھاگا اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے۔‘
انڈین ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے سے قصبے ہاسن میں سال 1948 میں جنم لینے والی بانو مشتاق نے ایک مسلمان خاندان میں پرورش پائی۔ وہ آٹھ برس کی ہوئیں تو ان کے والد، جو سرکاری ملازم تھے، نے انہیں ایک کانوینٹ سکول میں داخل کروا دیا جہاں تعلیم کا ذریعہ ریاست کی سرکاری زبان کنڑ تھی۔
بانو مشتاق نے کچھ ہی عرصہ میں کنڑ زبان میں مہارت حاصل کر لی جو بعد میں ان کی ادبی شناخت اور تخلیقی اظہار کی زبان بن گئی۔
بانو مشتاق نے لکھنے کا آغاز زمانۂ طالب علمی میں ہی کر دیا تھا اور جب اُن کی ہم عمر لڑکیاں شادی کر کے گھر گرہستی میں مصروف ہو چکی تھیں تو اُنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

بانو مشتاق نے اگرچہ کم عمری میں لکھنا شروع کر دیا تھا مگر اُن کی پہلی مختصر کہانی اُس وقت ایک مقامی رسالے میں شائع ہوئی جب وہ 27 برس کی تھیں اور ایک سال قبل ہی وہ بزنس مین مشتاق محی الدین سے پسند کی شادی کر چکی تھیں۔
شادی کے ابتدائی سال بانو مشتاق کے لیے جذباتی کشمکش سے بھرپور رہے۔
انہوں نے جریدے ’ووگ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’مجھے ہمیشہ لکھنے کا شوق رہا تھا، مگر لکھنے کو کچھ تھا ہی نہیں، محبت کی شادی کے اگلے ہی روز اچانک مجھ سے برقع اوڑھنے اور گھریلو کام کرنے کے لیے کہا گیا۔‘
بانو مشتاق نے اپنی کتاب ’ہارٹ لیمپ‘ میں جن خواتین کرداروں کو تخلیق کیا ہے اُن میں وہی حوصلہ، درد اور جرأت جھلکتی ہے جس کا مصنفہ نے خود سامنا کیا۔ وہ 29 برس کی عمر تک ماں بن چکی تھیں اور زچگی کے بعد کے ڈپریشن سے نبرد آزما تھیں۔
انہوں نے جریدے ’دی ویک‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُن دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک بار شدید مایوسی کے عالم میں میں نے اپنے اوپر پیٹرول چھڑک لیا، میں نے خود کو آگ لگانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ یہ تو شکر ہے، انہوں (شوہر) نے وقت پر ادراک کر لیا، مجھے گلے لگایا اور ماچس کی ڈبیا مجھ سے چھین لی۔ وہ میرے قدموں میں ہمارے بچے کو رکھ کر منت سماجت کرنے لگے کہ ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ۔‘

بانو مشتاق نے مزید کہا کہ ’شاید یہ زچگی کے بعد کا ڈپریشن تھا۔‘
انہوں نے اس دوران ایک اخبار میں بطور رپورٹر کام کیا اور سماجی مسائل کو اجاگر کرتی رہیں۔ صحافت سے جی اُچاٹ ہوا تو وکالت کو بطور پیشہ اختیار کر لیا مگر لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق سال 1981 میں جب بانو مشتاق کی تیسری بیٹی پیدا ہوئی تو وہ ایک بار پھر ’ہیجانی کیفیت‘کا شکار ہوئیں۔ اُن کے مطابق ان کے شوہر نے فوراً اس کیفیت کو پہچان لیا۔ وہ چند دوائیں اور کنڑ اخبار ’لنکیش پترِکے‘ کی ایک کاپی لے کر گھر آئے۔ یہ لمحہ بانو مشتاق کی زندگی میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔‘
ان دنوں ہی بیجاپور میں ایک مسلم خاتون ٹیچر کو مردوں کی جانب سے سنیما جا کر فلم دیکھنے سے روکا گیا تو بانو مشتاق کی حساس طبیعت یہ ناانصافی قبول نہیں کر سکی۔ انہوں نے قلم اُٹھایا اور مسلمان مردوں کے اس رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے یہ مضمون اخبار کو اشاعت کے لیے بھیجا جو چند ہی دنوں میں شائع ہو گیا۔
یوں بانو مشتاق کے اس طویل سفر کا آغاز ہوا جس میں انہوں نے کئی مشکلات کا سامنا کیا مگر وہ ہمت نہیں ہاریں۔انہوں نے ادب ہی تخلیق نہیں کیا بلکہ حقوق کی جدوجہد میں بھی سرگرم رہیں۔
اخبار ’دکن ہیرلڈ‘ لکھتا ہے کہ ’بانو مشتاق محض ایک مصنفہ نہیں، بلکہ وہ خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد اور مذہبی کشیدگی کو ختم کرنے کی کوششوں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔‘

’ایک وقت ایسا بھی آیا جب اُن کے خلاف علما کی جانب سے فتویٰ جاری کیا گیا، مگر بانو مشتاق نے پیچھے ہٹنے کی بجائے مزاحمت کی۔‘
اخبار ’دی ہندو‘ لکھتا ہے کہ ’بانو مشتاق سال 1980 کی دہائی میں کنڑ ادب کی مشہور بندایا تحریک سے وابستہ رہیں۔ یہ تحریک سماجی اور معاشی انصاف کی ایک پُراثر تحریک تھی۔ ایک ایسی ادبی بغاوت جو نہ صرف مزاحمت کی روایت پر مبنی تھی بلکہ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو اپنی آواز بلند کرنے کے لیے پلیٹ فارم بھی فراہم کرتی تھی۔‘
بانو مشتاق نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور وہ سال1983 میں سٹی میونسپل کونسل ہاسن کی رکن منتخب ہوئیں۔ وہ دو بار اس عہدے کے لیے منتخب ہوئیں۔
بانو مشتاق کا ادبی کیریئر چھ دہائیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے اس دوران 60 سے زیادہ کہانیاں تحریر کیں اور ان کی کہانیوں کے چھ مجموعے شائع ہوئے جن میں وہ سماج کے بہت سے حساس موضوعات کو گہرائی سے اجاگر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اُن کی تحریریں اگرچہ کنڑ زبان میں ہے مگر اُن میں اردو، دکنی اور عربی کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے جس سے ان کی کہانیوں کی ادبی وسعت اور ثقافتی گہرائی مزید نمایاں ہوتی ہے۔
مصنفہ نے ’ووگ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’عورتیں اکثر مردوں کی نسبت عورتوں کے ساتھ زیادہ برا برتائو کرتی ہیں۔ وہ مردوں کا کردار ادا کرتی ہیں اور عورتوں کے استحصال کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے سینئر قیدی دوسرے قیدیوں کے نگراں بن جاتے ہیں۔‘

بانو مشتاق عظیم روسی ناول نگار فیودور دوستوئیفسکی اور کنڑ کے سرگرم کارکن اور ادیب دیوانور مہادیوا سے متاثر ہیں۔
بانو مشتاق کی کہانیاں انگریزی کے علاوہ ملیالم، تمل، پنجابی اور اردو میں بھی ترجمہ ہو چکی ہیں۔ سال 1999 میں انہیں کرناٹک سٹیٹ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
’ہارٹ لیمپ‘ سے قبل بانو مشتاق کے افسانوی مجموعے ’حسینہ اور دوسری کہانیاں‘ کے انگریزی ترجمے کو سال2024 کا پین انگلش ٹرانسلیشن ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔ اس مجموعے کی مترجمہ بھی دیپا بھاستی ہی تھیں جو انٹرنیشل بکر پرائز حاصل کرنے والی پہلی انڈین مترجمہ ہیں۔
بانو مشتاق کا یہ ماننا ہے کہ ’ادب ایک ایسی دنیا میں جو ہمیں بار بار تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے، اُن چند آخری مقدس پناہ گاہوں میں سے ایک ہے جہاں ہم چند صفحات کے لیے ہی سہی، ایک دوسرے کے ذہنوں میں جی سکتے ہیں۔‘
مصنف اور جیوری کے سربراہ میکس پورٹر نے بانو مشتاق کے افسانوی مجموعے ’ہارٹ لیمپ‘ کو ’انگریزی قارئین کے لیے حقیقتاً کچھ نیا قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ ’زندگی سے بھرپور کہانیاں‘ ہیں۔

’ہارٹ لیمپ‘ میں شامل تمام کہانیاں جنوبی ہندوستان کے پدرسری معاشروں میں بسنے والی عورتوں کی زندگیوں کو بیاں کرنے کے علاوہ مصنفہ کے طویل ادبی کیریئر کا خلاصہ پیش کرتی ہیں۔
بانو مشتاق نے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کامیابی صرف ایک ذاتی سنگِ میل نہیں، بلکہ اس بات کی توثیق ہے کہ ہم بطور فرد اور بطور عالمی برادری اُس وقت ترقی کر سکتے ہیں جب ہم تنوع کو قبول کریں، اپنے اختلافات کا جشن منائیں، اور ایک دوسرے کی ترقی میں مددگار ثابت ہوں۔‘
بانو مشتاق نے ایک علاقائی زبان میں کچھ یوں اپنے جذبات کو بیان کیا ہے کہ اُن کی آواز کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ کہانیاں لکھی ہیں جنہیں ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔