مجروح سلطان پوری کی ’آدھی علمی اور آدھی فلمی‘ زندگی، سہگل سے لے کر شاہ رخ تک کے لیے گیت لکھے
مجروح سلطان پوری کی ’آدھی علمی اور آدھی فلمی‘ زندگی، سہگل سے لے کر شاہ رخ تک کے لیے گیت لکھے
ہفتہ 24 مئی 2025 6:36
یوسف تہامی، دہلی
مجروح سلطان پوری نے اپنی زندگی کو ’آدھی علمی اور آدھی فلمی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ فائل فوٹو: مجروح سلطان پوری فیس بک پیج
انگریزی میں ایک کہاوت ہے ’فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امرپیشن‘ اور جب ہم انڈین فلم انڈسٹری پر نظر کرتے ہیں تو اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن آج ہم یہاں اس نغمہ نگار کی بات کر رہے ہیں جن کے پہلے گیت نے انہیں امر کر دیا۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جاوید اختر کا پہلا گیت کون سا ہے یا پھر گلزار کا پہلا نغمہ کیا تھا، یا پھر مجروح سلطان پوری نے کس گیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا؟
جاوید اختر نے بحیثیت سکرپٹ رائٹر اپنی پہچان بنا لی تھی لیکن بطور نغمہ نگار ان کا پہلا گیت فلم ’سلسلہ‘ میں سامنے آیا جب انہوں فلم انڈسٹری کو ’دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے‘ جیسا گیت دیا۔
اسی طرح گلزار نے فلم ’بندنی‘ کے لیے جو گیت لکھا اس نے فلم انڈسٹری میں انہیں متعارف کرایا اور یہ ان کی پہچان بنا۔ اور وہ گیت ’مورا گورا انگ لیے لے، موہے شام رنگ دیے دے‘ تھا۔
لیکن ہم یہاں اس معروف شاعر اور نغمہ نگار کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے ’جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کر کیا کریں گے‘ سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ یہ نوجوان شاعر کوئی اور نہیں بلکہ مجروح سلطان پوری تھے۔
مجروح سلطان پوری نے یہ گیت 1946 میں آنے والی فلم ’شاہجہاں‘ کے لیے لکھا۔ اس فلم کے اداکار اور اس گیت کے گلوکار کے ایل سہگل تھے اور انہیں یہ گیت اتنا پسند آیا کہ انہوں نے کہا کہ جب ان کی موت ہو تو یہ گیت ان آخری رسومات پر بجایا جائے۔
مجروح کا فلموں میں آنا محض اتفاق تھا۔ یہ 1945 کی بات ہے جب مجروح بمبئی کے تعلیمی ادارے صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے سلطانپور سے بمبئی پہنچے تھے۔ ان کے ترنم اور کلام نے فلمساز اے آر کاردار کو اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے اپنی فلم ’شاہجہاں‘ میں گیت لکھنے کی انہیں پیشکش کی۔
مجروح فلموں میں لکھنے کے خواہشمند نہیں تھے لیکن جب ان کے استاد اور معروف غزل گو جگر مراد آبادی نے انہیں روزی روٹی کے لیے قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تو انہوں نے یہ گیت لکھا۔ اس کی دھن معروف موسیقار نوشاد نے بنائی اور یہ اپنے زمانے کے مقبول اور معروف ترین نغموں میں شامل ہے۔
مجروح سلطان پوری کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا اور وہ اترپردیش جو اس وقت یونائیٹڈ پروونس ہوتا تھا کے قصبے سلطان پور میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد اگرچہ انگریزوں کے ملازم تھے اور پولیس کی نوکری کرتے تھے لیکن وہ انگریزی تعلیم کے مخالف تھے اس لیے انہوں اسرار کا داخلہ مدرسے میں کرایا اور پھر بعد میں وہ طب کے شعبے میں چلے گئے جہاں نیم حکیم ہی رہے۔ لیکن شاعری ان کی جبلت میں تھی چنانچہ ایک بار جب سلطانپور میں مشاعرہ ہوا تو استاد شاعر جگر مرادآبادی کو ان کا کلام پسند آیا اور انہوں نے نوجوان شاعر کو اپنی شاگردی میں قبول کیا۔
فلم فیئر کی مدیر فرحانہ فاروق نے مجروح سلطان پوری کے گیتوں کے تنوع کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ مجروح سلطان پوری تاعمر ’مجروح‘ رہے یعنی پریشانیوں نے ان کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔
فرحانہ فاروق نے لکھا: ’کے ایل سہگل سے لے کر شاہ رخ خان تک ان کے گیت ہر نسل کی زبانوں کا احاطہ کرتے تھے۔ ان کے گیت مجرے کی شہوت انگیزی، کیبرے کی رغبت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ خوابوں کو جنم دے سکتے ہیں اور انسانی جذبوں کو بیدار کر سکتے ہیں۔ وہ محبت کو جنم دے سکتے ہیں اور زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں۔ مجروح نے عمر کو اپنے دل اور فن کے راستے میں آنے نہیں دیا۔ ان کی مقبولیت کا اس سے بہتر اور کیا ثبوت ہے کہ ’مونیکا او مائی ڈارلنگ‘ جیسے گیت پانچ-چھ دہائیوں بعد بھی پارٹی کے پوڈ کاسٹ میں سرفہرست رہتا ہے۔‘
مجروح سلطان پوری نے 1964 میں فلم دوستی کے گیت لکھے۔ فائل فوٹو: مجروح سلطان پوری فیس بک پیج
لیکن ان کو پہلے گیت کے بعد بڑی کامیابی دلیپ کمار، راج کپور اور نرگس کی فلم ‘انداز‘ سے ملی جس میں ان کے گیت ‘تو کہے اگر میں جیون بھر‘، ’ہم آج کہیں دل کھو بیٹھے‘، ’اٹھائے جا ان کے ستم‘، ’ٹوٹے ناں دل ٹوٹے ناں‘ جیسے گیت لکھے اور سب کے سب بے حد مقبول ہوئے۔
ان کے متنوع رنگ کا بالی وڈ کا کوئی دوسرا نغمہ نگار شاید ہی مقابلہ کر سکے۔ ان کے گیتوں میں ’چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا‘، ’آنکھوں میں کیا جی‘، ’دیوانہ مستانہ ہوا دل‘، ‘ہونٹوں پہ ایسی بات‘، ’اچھا جی میں ہاری پیا‘ جیسے سدابہار گیت شامل ہیں۔
اردو ادب میں ساحر لدھیانوی کو ان کے اشتراکی نظریے کے لیے جانا جاتا ہے لیکن مجروح کو اپنے نظریات کی وجہ سے دو سال جیل میں گزارنا پڑا۔ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا گیا لیکن انہوں نے معافی مانگنے کے بجائے جیل کو ترجیح دیا۔
ایک بار کی بات ہے کہ انہیں ایک ایسی ہیروئن کی آنکھوں کی تعریف میں گيت لکھنے تھے جو نابینا تھی۔ یہ فلم راج کھوسلہ کی ’چراغ‘ تھی جو 1969 میں ریلیز ہوئی۔ کوئی ڈھنگ کا مکھڑا تیار نہیں ہو رہا تھا کہ انہوں نے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں فیض احمد فیض کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ سنی۔
اس میں ایک مصرع ’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘ تھا۔ انہیں یکایک اپنے گیت کا مکھڑا مل گیا اور پھر انہوں نے فیض احمد فیض سے رجوع کیا اور یہ اجازت لی کہ وہ اس مصرعے کو مکھڑے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ فیض احمد فیض نے فراخدلی کے ساتھ اجازت دی اور پھر اس پر جو گیت تیار ہوا وہ اسی طرح مشہور ہوا جیسے فیض کی غزل۔
مجروح نے زندگی میں بہت ساری صعوبتیں جھیلیں جن میں ایک بیٹے کی جواں مرگی بھی شامل تھی۔ لیکن وہ تاحیات دل سے جوان رہے۔
مجروح کو فلم دوستی کے گیت ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ کے لیے پہلی بار فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ دوستی کے سارے گیت بہت مشہور ہوئے۔ وہ پہلے نغمہ نگار ٹھہرے جنھیں گرانقدر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مجروح سلطان پوری نے پہلا گیت 1946 میں فلم ’شاہجہاں‘ کے لیے لکھا۔ فائل فوٹو:ؒ مجروح سلطان پوری فیس بک پیج
مجروح سلطان پوری جس علاقے سے آتے ہیں وہ بھوجپوری کے بہت نزدیک ہے اس لیے ان کے گیتوں میں ان کی زمین کی خوشبو رچی بسی ہے۔ چنانچہ ہٹ بھوجپوری فلم ’لاگی ناہی چھوٹے راما‘ کے سارے گیت ان کے قلم اور فکر کا جادو ہیں۔
انہوں نے عامر خان کی فلم ’قیامت سے قیامت تک‘ کے بھی گیت لکھے۔ انہوں نے کوئی 300 سے زیادہ گیت لکھے ہوں گے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایک دو ماہ بھی نہ لکھیں تو ان کے گھر چولہا جلنا بند ہو جائے گا۔ ان کا آخری گیت شاہ رخ خان کی فلم کے لیے تھا جو ان کی موت کے بعد منظر عام پر آیا۔
انہوں نے اپنی زندگی کو ’آدھی علمی اور آدھی فلمی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ انہیں زندگی بھر اس بات کا دکھ رہا کہ انہیں ادبی تسکین کے لیے لکھنے کا موقع کم ہی ملا۔
ان کا ایک شعر بہت زیادہ مشہور ہے اور شاید آپ کی نظر سے بھی گزرا ہو۔ اور وہ شعر اس طرح ہے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
لیکن چونکہ ہم انہیں ان کی موت کے پورے 25 سال بعد یاد کر رہے ہیں تو ان کا یہ شعر زیادہ موزوں نظر آتا ہے:
ہمارے بعد اب محفل میں افسانے بیاں ہوں گے
بہاریں ہم کو ڈھونڈھیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے
مجروح سلطان پوری آج سے 25 سال قبل آج ہی کے دن 24 مئی 2000 کو 80 سال کی عمر میں ممبئی میں وفات پا گئے۔