بلوچستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پہلے ہی سے وسائل کی کمی کے شکار صوبے کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ پانی کی قلت، روزگار کی کمی، تعلیم اور صحت کی ناکافی سہولیات اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح جیسے عوامل کے پیش نظر بلوچستان حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی کی نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔
محکمہ بہبود آبادی بلوچستان نے صوبے کے تمام اضلاع میں علماء کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ خاندانی منصوبہ بندی جیسے حساس موضوع پر معاشرتی قبولیت حاصل کی جا سکے۔
محکمہ بہبود آبادی بلوچستان کے مطابق صوبے کے 31 اضلاع میں 150 علماء کو ’معاونین خاندانی منصوبہ بندی‘ کے طور پر بھرتی کیا گیا ہے جنہیں اعزازیہ بھی دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
سیکریٹری بہبود آبادی بلوچستان عبداللہ خان نے اردونیوز کو بتایا کہ ان علماء کو ایسے اسلامی لٹریچر اور معتبر دینی اداروں کے فتاویٰ فراہم کیے گئے ہیں جو تولیدی صحت، والدین کی ذمہ داریاں، بچوں کے حقوق اور وسائل کے مطابق خاندانی نظام پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان فتاویٰ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بچوں کے درمیان وقفہ اور ماں کی صحت کا خیال رکھنا اسلام کے عین مطابق ہے۔
عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے حکومت بلوچستان نے خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے لیے اسلامی اصولِ توازن کو بنیاد بنایا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد ماں اور بچے کی صحت، خاندانی خوشحالی اور وسائل و آبادی کے درمیان توازن کو فروغ دینا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات میں بھی اعتدال اور فلاح انسانیت کو بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے مقرر کیے گئے معاونین مساجد، مدارس، جمعہ کے خطبات، سماجی اجتماعات اور نشستوں میں متوازن خاندان، ماں اور بچے کی صحت جیسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں اوردینی دلائل کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔
کوئٹہ کے حافظ مولوی محمد شعیب گزشتہ 14 سال سے مختلف مساجد میں امام اور مدارس میں معلم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اب اس مہم میں حکومت کے معاون کےطور پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہر انسان کا حق ہے کہ اسے صحت مند زندگی، بہتر تعلیم اور کفالت میسر ہو۔ بچوں کی تعداد وسائل کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ والدین ان کی صحیح تربیت اور پرورش کر سکیں۔‘
حافظ محمد شعیب کا کہنا ہے کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسانی جان کی حفاظت اور فلاح مقدم ہے۔ مسلسل حمل اور وسائل کی کمی نہ صرف ماں کی صحت کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ بچوں کی زندگی اور نشو و نما پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اعتدال اپنانے کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔
سیکریٹری بہبود آبادی عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی بعض لوگ خاندانی منصوبہ بندی کو غیراسلامی تصور کرتے ہیں۔ یہ غلط فہمی کو دور کرنے میں علماء بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ان کے بقول ’ہر ضلع میں مذہبی رہنماؤں اور علماء کو متحرک کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کو شامل کر کے خاندانی منصوبہ بندی کے تصور کو معاشرتی قبولیت مل رہی ہے۔ اس مہم کے مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔‘
بلوچستان کی آبادی 1951 میں صرف 12 لاکھ تھی جس میں گزشتہ ستر سالوں کے دوران دس گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق صوبے کی آبادی ایک کروڑ 48 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
صوبے میں آبادی کی سالانہ شرحِ نمو 3.2 فیصد ہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق اگر یہی رفتار برقرار رہی تو 2045 تک صوبے کی آبادی دگنی ہو جائے گی۔
عبداللہ خان کہتے ہیں کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب خوراک، تعلیم و صحت کی سہولیات، ملازمتوں اور انفراسٹرکچرکی مسلسل بڑھتی ہوئی ضروریات اور حکومت پر اتنی ہی تیز رفتاری سے یہ خدمات فراہم کرنے کے لیے دباؤ بڑھنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے مطابق آبادی میں اضافے کی شرح دو فیصد سے زائد رہی تو 2040 تک بلوچستان میں تک 65 لاکھ نئی ملازمتوں، 10 لاکھ گھروں اور 7200 پرائمری اسکولوں کی ضرورت ہو گی۔
ماہرین کے مطابق بڑھتی آبادی کا براہ راست اثر صحت کے نظام پر پڑ رہا ہے۔ تولیدی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بلوچستان میں ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 298 مائیں ہلاک ہوتی ہیں جبکہ ایک ہزار میں سے 66 بچے ایک سال کی عمر کو نہیں پہنچ پاتے۔ یہ اعداد و شمار قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے بچوں کی اکثریت غذائی قلت، جسمانی کمزوری، لاغر پن اور قد کی کمی کا شکار ہے۔
بلوچستان کی کی 71 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 5 سے 16 سال کی عمر کے 58 فیصد بچے یعنی تقریباً 30 لاکھ سکولوں سے باہر ہیں۔ شرح تعلیم محض 42 فیصد ہے۔
