Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں صدیوں سے خاموش آتش فشاں جو دنیا کو حیران کیے ہوئے ہیں

کچھ آتش فشاں میدان ایسے ہیں جو امکانی طور پر’ایکٹیو‘ ہیں (فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب کے وسیع و عریض صحراؤں اور پہاڑی سلسلوں میں 2500 آتش فشاں گڑھے ہیں جو آج بھی سائنس دانوں کو راغب کر رہے ہیں اور مہم جُو افراد میں جوش و جذبہ پیدا کر رہے ہیں۔
صدیاں بیت چکیں ہیں مگر ان قدیم آتش فشاں پہاڑوں نے لاوا نہیں اگلا لیکن یہ خاموشی پھر بھی ان کی اہمیت کو کم نہیں کرتی۔
 سعودی جیولوجیکل سروے میں ’جیو ہیزرڈ سینٹر‘ کے سینیئر ڈائریکٹر ترکی عصام السھلی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’مملکت میں پائے جانے والے آتش فشاں میدان، دنیا کے چند بڑے بڑے آتش فشاں میدانوں میں شامل ہیں۔ یہ میدان 90 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں جو مملکت کے کُل رقبے کا تقریباً چار اعشاریہ چھ فیصد بنتا ہے۔
آخری مرتبہ 1256 اے ڈی میں مملکت میں آتش فشاں پھٹا تھا جب الحرہ رھاط سے لاوا 20 کلو میٹر تک بہہ کر مدینے تک آ گیا تھا، تاہم طویل عرصہ سے یہ سلسلہ رک چکا ہے۔
ترکی عصام السھلی کے مطابق ’صدیاں گزر گئیں ہیں لیکن مملکت نے آتش فشانی میں استحکام دیکھا ہے۔
لاوے کی یہ خاموشی اور لاوے سے بنے قدیم میدانوں کا حسین منظر اب تیزی سے ایک نئی شکل میں تبدیل ہو رہا ہے اور ’آتش فشاں سیاحت‘ کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔

سعودی عرب کے میدانوں میں لاوے نے اپنے نشان چھوڑے ہوئے ہیں (فوٹو: ایس پی اے)

سیاہ مخروطی پہاڑوں سے ان گڑھوں تک کا منظر نامہ اس خطے میں دم بخود رہ جانے والی ایک ارضیاتی تصویر پیش کرتا ہے۔
سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والے الوابہ کا وسیع گڑھا ہے جو طائف کے قریب ہے۔ اس کی گہرائی 250 میٹر اور چوڑائی دو کلو میٹر تک ہے۔
عسیر کے علاقے میں جبلِ فروہ ہے، جو مملکت میں سب سے اونچا پہاڑ ہے، اس کی بلندی سطحِ سمندر سے تین ہزار میٹر تک ہے۔
خیبر کے قطعِ ارضی میں پہاڑ القدر ہے جہاں کبھی لاوا 50 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور تک بہتا ہوا آ گیا تھا۔اس کے علاوہ یہیں پر جبلِ ابیض بھی ہے جو اپنے سفیدی مائل رنگ اور عام روش سے ہٹ کے تخلیقی ترتیب کی وجہ سے لوگوں کے لیے مرکزِ نگاہ ہے۔
اگرچہ کچھ آتش فشاں میدان ایسے ہیں جو امکانی طور پر’ایکٹیو‘ ہیں، تاہم ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔

ارضیات میں دلچپسی بڑھ گئی اس سے متعلق سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

اگر مستقبل میں کوئی آتش فشاں لاوا اگلتا ہے جس کا امکان اگرچہ بہت ہی کم ہے، تو بہت توجہ سے اس کی نگرانی کی جائے گی۔ سعودی جیولوجیکل سروے میں بہترین اور جدید زلزلہ پیما آلات ہیں جو زیرِ زمین انتہائی خفیف حرکت کا بھی پتہ چلا سکتے ہیں۔
لیکن اگر کسی آتش فشاں سے وسیع پیمانے پر لاوا نکل آئے تو اس کا ماحولیات اور مقامی آب و ہوا پر کافی زیادہ اثر پڑے گا۔
السھلی کے مطابق کسی بڑی آتش فشانی کی صورت میں، آتش فشاں راکھ اور سلفر ڈائی اوکسائیڈ، کاربن ڈائی اوکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں فضا کی اوپری سطح تک پہنچ کر مقامی یا خطے کی آب و ہوا کو عارضی طور پر ٹھنڈا کر دیں گی لیکن تیزابی بارش کا باعث بھی بنیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ارضیات میں لوگوں کی دلچپسی کافی بڑھ گئی ہے اور اس سے متعلق سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارتِ سیاحت، سعودی جیولوجیکل سروے کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ ان ارضیاتی سائٹس کو محفوظ کیا جا سکے۔

ان ارضیاتی سائٹس کو محفوظ بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے (فوٹو: ایس پی اے)

سعودی جیولوجیکل سروے کا کردار نگرانی سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ نقشے اور رپورٹس تیار کرتا ہے اور تحقیق کرواتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ نمائشوں اور مختلف پروگراموں کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کر رہا ہے تاکہ اہم جیولوجیکل سائٹس کو محفوظ بنایا جا سکے تاکہ آنے والی نسلیں سعودی عرب کی آتش فشاں ماضی سے باخبر رہیں۔
سعودی عرب کے میدانوں میں کہیں لاوے نے اپنے نشان چھوڑے ہوئے ہیں تو کہیں یہ بلند و بانگ مخروطی پہاڑوں کی شکل میں موجود ہے لیکن مملکت کے آتش فشاں میدان، زمین کی قدیم قوتوں کی طرف دیکھنے کا پتہ دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ ان لوگوں کے لیے ایک نیا اور بے مثال سفری تجربہ فراہم کرتے ہیں جو سعودی عرب کی ایک مختلف شکل دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ آتش فشاں پہاڑ بھلے خوابیدہ ہوں لیکن ان میں پائے جانے والے امکانات، علم، سیاحت اور حیرانی ہرگز خوابیدہ نہیں ہے۔

 

شیئر: