کرنسی ایکسچینجز کے آس پاس گھومتے ’ایجنٹس‘ شہریوں سے کیسے فراڈ کرتے ہیں؟
کرنسی ایکسچینجز کے آس پاس گھومتے ’ایجنٹس‘ شہریوں سے کیسے فراڈ کرتے ہیں؟
بدھ 4 جون 2025 5:33
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
محمد اکبر کے مطابق شہریوں کو مستند کرنسی ایکسچینجز کے اندر جا کر اپنے نوٹ تبدیل کروانے چاہییں (فائل فوٹو: روئٹرز
لاہور کے علاقے رنگ محل میں پیر کو ایک شہری دانیال بٹ سعودی ریال پاکستانی روپوں میں تبدیل کروانے کے لیے ایک کرنسی ایکسچینج مرکز پہنچے تو انہیں عجیب و غریب صورت حال سے سامنا کرنا پڑا۔
دانیال بٹ اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں گزشتہ کئی برس سے سعودی عرب میں کام کر رہا ہوں اور آج کل چھٹی آیا ہوا ہوں۔ میں معمول کے مطابق ریال تبدیل کروانے کے لیے اپنے ہی علاقے میں ایک کرنسی ایکسچینج پر پہنچا تو ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ کیا چاہیے، ڈالر؟ تو میں نے کہا کہ نہیں میں تو ریال تبدیل کروانے آیا ہوں۔‘
دانیال بٹ کے مطابق اس کے بعد اس شخص نے کہا کہ ’یہ تو آپ کو بہت کم ریٹ دیں گے، آپ میرے ساتھ آئیں۔ وہ اس قدر پراعتماد دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے یہ تمام دکاںیں اس کی ہوں۔ ذرا آگے جا کر کہنے لگا کہ آج کل سعودی ریال کی پاکستان میں بہت ڈیمانڈ ہے۔ ایک پارٹی ہے جو ڈبل پیسوں میں ریال خرید رہی ہے۔‘
پھر اس نے پوچھا کہ کتنے ریال تبدیل کروانے ہیں تو میں نے کہا فی الحال تو 1000 ریال ہی ہیں۔ اس نے کہا کہ پیسے مجھے دیں، میں اندر سے تبدیل کروا کے آتا ہوں۔ وہ میرے سامنے اندر گیا اور اس کے بعد باہر نہیں نکلا۔‘
کافی دیر انتظار کے بعد جب دانیال بٹ خود دکان کے اندر گئے تو وہ شخص اندر نہیں تھا۔
دکان دار کا کہنا تھا کہ یہاں تو ایسا کوئی شخص نہیں آیا جس نے ریال تبدیل کروانے ہوں اور نہ ہی کوئی ایسی سکیم چل رہی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے فوری پولیس کو مطلع کیا جس کے بعد پولیس موقعے پہنچی اور معاملے کی چھان بین شروع کر دی۔
مختلف سی سی ٹی وی فوٹیجز نکلوائی گئیں اور اس نامعلوم شخص کی شناخت عبداللہ کے طور پر ہوئی جو کرنسی ایکسچینجز کے باہر ’ذاتی حیثیت میں‘ ایجنٹ کے روپ میں کام کرتا ہے۔
تاہم ابھی تک پولیس ملزم کو تلاش کر رہی ہے۔ ملزم کا نام اور تصویر کا پتا لگانے کے علاوہ ابھی تک پولیس کو اس معاملے میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔
کچھ افراد کرنسی ایکسچینجز کے باہر ’ذاتی حیثیت میں‘ ایجنٹ کے روپ میں کام کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پچھلے 20 برس سے کرنسی ایکسچینج کا کام کرنے والے محمد اکبر کہتے ہیں کہ ’نوسربازوں سے بچنے کے لیے ہم نے اپنی دکانوں میں بڑی بڑی تحریریں لکھ کر لگا رکھی ہیں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں لوگ تو ڈالر میں بڑا فراڈ کرتے ہیں۔ بھئی! جب آپ گھر سے نکل آئے ہیں تو پھر دکان کے اندر بھی آجائیں، آپ باہر ہی لین دین شروع کر دیں گے جو کہ ہے بھی غیرقانونی تو اس طرح کے واقعات تو ہوں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں باہر سے شہریوں نے ڈالر تبدیل کروائے تو ان کو نقلی نوٹ دے دیے گئے۔ شہریوں کو مستند کرنسی ایکسچینجز کے اندر جا کر اپنے نوٹ تبدیل کروانے چاہییں اور اس کی پکی رسید لینی چاہیے۔‘
ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کہتے ہیں کہ ’نوسربازی کے واقعات کے اعدادوشمار تو نہیں ہیں لیکن جو حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے دوسری کرنسیوں کی خریدوفروخت کرتے ہیں، وہ تو پورے نیٹ ورک بنا کر کام کرتے ہیں۔ ایف آئی اے ایسے بڑے نیٹ ورک پکڑے ہیں۔‘
’ایسا ہی ایک نیٹ ورک گوجرانوالہ میں پکڑا گیا جس سے کروڑوں روپے کی غیرملکی کرنسی برآمد ہوئی۔ جس میں ڈالر اور سعودی ریال بھی تھے۔ وہ گروہ بھی اس وجہ سے پکڑا گیا کہ انہوں نے کئی شہریوں سے فراڈ کیا تھا اور ان میں سے کچھ نے ایف آئی اے میں درخواست دے دی تھی۔ ایف آئی اے نے کچھ لیڈز کو فالو کیا تو پیچھے بہت بڑا نیٹ ورک تھا۔‘