Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ابہا کے تاریخی قلعہ الدقل میں ترمیم کا کام مکمل

’تاریخی ماہر ڈاکٹر غیثان جریس کا کہنا ہے کہ قلعے کی تعمیر 110 سال قبل ہوئی تھی‘ ( فوٹو: سبق)
قلعہ الدقل ابہا شہر کے نمایاں تاریخی آثار میں سے ایک ہے جو ترمیم کے بعد دوبارہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن  گیا ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق وزارت ثقافت نے  قلعے کی تاریخی اہمیت اور طرز عمارت کو اجاگر کرنے کے لیے اس کی مرمت کا  کام مکمل کرلیا ہے۔
یہ قلعہ ابہا شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے اور پہاڑ کی چوٹی پر تعمیر کیا گیا ہے جس کی بلندی سطح سمندر سے 2342 میٹر ہے۔
 اس بلند مقام نے اسے اردگرد کے پہاڑی سلسلوں سے گزرنے والے راستوں کی نگرانی کے لیے ایک اسٹراٹیجک جگہ بنا دیاہے۔
 تاریخی ماہرڈاکٹر غیثان جریس کا کہنا ہے کہ قلعےکی تعمیر 1334ھ یعنی 110 سال قبل ہوئی تھی۔

ورثہ بورڈ کے زیرِ انتظام کئے گئے مرمتی کام میں قلعے کی گری ہوئی دیواروں کو انہی مقامی پتھروں سے دوبارہ تعمیر کیا گیاہے جن سے اصل قلعہ بنایا گیا تھا۔
 جبکہ اس کے روایتی ڈیزائن کی جزئیات کو محفوظ رکھا گیا۔ اس کے ساتھ قلعے کے راستوں اور اندرونی حصوں کو بھی صاف کیا گیا تاکہ یہ سیاحوں اور ورثے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے تیار ہو جائے۔
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محفوظ الزہرانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’الدقل کا مطلب  بلند عمارت ہے یعنی وہ لکڑی جس پر کشتی کے بیچ میں بادبان بندھا ہوتا ہے  جو بلندی اور عظمت کی علامت ہے۔
تحقیقی مطالعے کے مطابق قلعہ سخت اور پتھریلے زمین پر تعمیر کیا گیا ہے جس نے اس کے انجینئرنگ نقشے پر اثر ڈالا مگر روایتی معماروں نے اس زمین سے مطابقت رکھتے ہوئے قلعہ مستطیل شکل میں تعمیر کیا جس کی لمبائی 43.6 میٹر اور چوڑائی 16 میٹر ہے اور اس کا شمالی رُخ نیم دائرہ نما ہے۔
 دفاعی حکمتِ عملی کے طور پر شمالی و مغربی اطراف کی قدرتی ڈھلوانوں اور چٹانوں سے بھی مدد لی گئی۔
قلعہ تین بنیادی حصوں پر مشتمل ہے: قیادت و نگرانی کا حصہ، فوجیوں کی رہائش اور سہولیات کا شعبہ۔ ایک لمبا راہداری نما دالان قلعے کو مشرقی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ قلعے میں ایک بڑا پتھریلا تنور موجود ہے جس سے مقامی افواج کے لیے روٹی تیار کی جاتی تھی۔
تنور کا دہانہ دو میٹر چوڑا ہے اور اس کے اوپر ایک 110 سینٹی میٹر لمبی اور 65 سینٹی میٹر چوڑی چمنی بنی ہوئی ہے۔
ذخیرہ اندوزی کے لیے قلعے میں اناج کے محفوظ ذخیرے کی سہولت بھی موجود ہے جو پتھروں اور مٹی سے بنائی گئی ،ایک نیم اسطوانی ساخت ہے تاکہ نمی اور کیڑوں سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
 اسی طرح قلعے میں عسیر کے معروف کھانے ’حنیذ‘ کی تیاری کے لیے بھی ایک مخصوص جگہ رکھی گئی جو مقام کی ثقافتی و سماجی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
تعمیر میں مقامی دستیاب خام مواد استعمال کیے گئے جیسے کہ گرینائٹ پتھر جو کٹاؤ کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں، عرعر کے درختوں کے تنے چھت کے لیے، مٹی، سرکنڈا اور بحیرہ احمر کے ساحلی شہر سے درآمد شدہ پلستر۔
 دیواروں کی بیرونی سطح پر پلستر کی تہہ لگائی گئی تاکہ قلعے کو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ پانی سے تحفظ بھی ملے۔
روایتی چھت سازی کی تکنیک میں عرعر کے تنے افقی طور پر رکھے گئے، ان پر سرکنڈا بچھایا گیا، پھر مٹی اور تنکے کا آمیزہ چڑھایا گیا اور آخر میں اسے دبایا گیا تاکہ مؤثر واٹر پروفنگ حاصل کی جا سکے۔
توقع ہے کہ قلعہ آئندہ مرحلوں کی تکمیل کے بعد عوام اور ورثہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کھول دیا جائے گا جس سے ابہا شہر میں ثقافتی ورثے کی موجودگی کو مزید تقویت ملے گی اور عسیر کے آثارِ قدیمہ کے ثقافتی پہلو کو فعال کیا جا سکے گا۔

شیئر: