Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاپتہ یا دہشت گرد رشتے دار کی اطلاع نہ دینے پر سخت کارروائی ہوگی: حکومت بلوچستان

بلوچستان حکومت نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے رشتے دار دہشت گردی میں ملوث پائے گئے اور اہل خانہ نے پہلے سے ان کی گمشدگی یا کسی مسلح گروہ سے وابستگی کی اطلاع نہ دی تو خاندان کے افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی ۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے ایک اعلامیے کے مطابق ایسے رشتے داروں کو جائیداد کی ضبطگی، سرکاری نوکریوں سے برطرفی اور ریاستی مراعات سے محرومی جیسے سخت نتائج کا سامنا کریں گے۔
یہ انتباہ محکمہ داخلہ بلوچستان نے جمعرات کو مقامی اخبارات میں اشتہارات شائع کر کے جاری کیا ہے۔
اشتہار میں کہا گیا ہے  کہ ’یہ ہدایات ان تمام افراد کے لیے ہیں جن کے بچے یا اہل خانہ گھر سے لاپتہ ہو جائیں یا کسی غیرریاستی عناصر یا دہشت گرد گروہ میں شامل ہو جائیں۔‘
محکمہ داخلہ نے ہدایت کی ہے کہ ’اگر کوئی شخص گھر سے لاپتہ ہو جائے یا کسی غیرریاستی یا دہشت گرد گروہ میں شامل ہو تو اس کی اطلاع سات دن کے اندر قریبی پولیس سٹیشن اور متعلقہ ایف سی یا فوجی یونٹ کو دینا لازمی ہے۔ پہلے سے لاپتہ افراد کے لواحقین کو بھی معلومات ایک ہفتے کے اندر دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔‘
اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ’ایسے تمام افراد کے اہل خانہ، سربراہ یا قانونی سرپرست جو کسی غیرریاستی عناصر / دہشت گرد گروہ میں شامل ہو چکے ہوں، ان کے بارے میں علیحدگی اور عاق (قطع تعلق) کرنے کا حلفیہ بیان ایک ہفتے کے اندر لازمی جمع کرائیں۔‘
پہلے سے موجود کیسز کے بارے میں بھی رشتے داروں کو ایک ہفتہ کے اندر معلومات جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
اعلامیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کوئی خاندان اپنے رشتہ دار کے لاپتہ ہونے یا مسلح سرگرمیوں میں شمولیت کی اطلاع نہ دے اور اسے خاندان سے عاق نہ کیا گیا ہو اور بعد میں وہ شخص دہشت گردی میں ملوث نکلا تو اس کے اہل خانہ کو سہولت کار اور اعانت کار قرار دیا جائے گا اور ان کے نام فورتھ شیڈول میں شائع کئے جائیں گے۔
اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ایسے سہولت کاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی جن میں جائیداد کی ضبطگی، سرکاری ملازمت سے برطرفی اور ریاست کی طرف سے ملنے والے ہر قسم کے مالی و فلاحی پیکیجز سے محرومی شامل ہیں۔

بلوچستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے: فائل فوٹو اے ایف پی

خیال رہے کہ انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت ’فورتھ شیڈول‘ ان مشتبہ افراد کی فہرست ہے جن پر شدت پسندی یا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔ اس فہرست میں شامل افراد کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت پر کڑی نگرانی رکھی جاتی ہے، ان کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ہوتی ہے اور انہیں قریبی پولیس تھانے میں باقاعدگی سے حاضری دینے کی پابندی بھی عائد کی جاتی ہے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق ایسے رشتہ داروں کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 202، 107، 109، 114، 118، 120 اے اور 120 بی کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
یہ دفعات کسی جرم کی اطلاع نہ دینے، اسے چھپانے، مجرم کو تحفظ دینے، اکسانے، کسی جرم کی سازش میں ملوث ہونے سے سے متعلق ہیں۔ بعض دفعات میں سزا اصل مجرم کے برابر دی جا سکتی ہے۔
 اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی کئی دفعات کے تحت بھی کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے جس میں جائیداد کی ضبطگی، قید اور جرمانے کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
 وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک ماہ قبل ہی اس پالیسی کا عندیہ دیا تھا۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کافی عرصے سے احتجاج ہو رہے ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی

18 اگست کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ہم اجتماعی سزا کے مخالف ہیں لیکن جو لوگ بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں، دہشت گرد کیمپوں میں جاتے ہیں اور پھر چھٹی پر گھر واپس آتے ہیں مگر ان کے رشتہ دار حکومت کو مطلع نہیں کرتے  ایسی صورت میں خاندان کے افراد خود کو بے گناہ نہیں کہہ سکتے۔ انہیں ملوث سمجھا جائے گا اور قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت گرے ایریا میں کام کررہی ہے جس میں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کون دہشت گرد ہیں اور کون نہیں۔
اس لیے صوبائی حکومت نے محکمہ داخلہ میں ایڈیشنل سیکریٹری کی سربراہی میں ایک علیحدہ سیل قائم کیاہے جو ایسے مشکوک افراد کی نگرانی کرتا ہے اور ان کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کرکے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔
سرفراز بگٹی نے انکشاف کیا تھا کہ اب تک اڑھائی ہزار افراد خاص کر سرکاری ملازمین کی تحقیقات کی جاچکی ہیں۔ بے گنا ثابت ہونے پر کئی لوگوں کے نام فہرست سے نکال لئے گئے ہیں۔ کچھ سے وضاحت مانگی گئی ہے جبکہ کچھ کو سرکاری نوکریوں سے برطرف یا معطل کردیا گیا ہے۔
جولائی میں بھی بلوچستان حکومت کی جانب سے ایک اشتہار جاری کیا گیا تھا جس میں دہشت گردوں کے ساتھ تصاویر یا سیلفیاں بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں حالیہ مہینوں کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس پر قابو پانے کے لیے حکومت نے نہ صرف سخت اقدامات کیے ہیں بلکہ انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 میں اہم ترامیم کرکے سخت قوانین نافذ کیے ہیں۔
 ان ترامیم کے تحت سکیورٹی اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی مشتبہ شخص کو 90 دن تک بغیر مقدمہ چلائے خصوصی حراستی مراکز میں رکھ سکتے ہیں جبکہ حکومت کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ دہشت گردی کے مخصوص مقدمات خفیہ عدالتی نظام کے تحت چلائے جائیں۔ اس نظام میں جج، وکلا اور گواہوں کی شناخت کو پوشیدہ رکھا جائے گا اور مقدمات عام عدالتوں کی بجائے جیلوں یا  خفیہ مقامات سے ورچوئل ذرائع سے بھی سنے جا سکیں گے۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک سنگین انسانی مسئلہ اور تنازع بنا ہوا ہے۔ بلوچ تنظیموں کا موقف ہے کہ ریاستی اداروں نے ہزاروں افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا ہے، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ان فہرستوں میں شامل کیے جاتے ہیں جو خود چھپ کر عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہو کر مسلح کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں لیکن الزام حکومت پر عائد کیا جاتا ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ’لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل اور شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘

شیئر: