ماضی میں تھکے ماندے ملاح جس مخلوق کو غلطی سے جل پری سمجھتے تھے، اور جسے آج سمندری گائے کہتے ہیں، وہ ایک شرمیلا، سست رفتار آبی جانور ڈوگونگ ہے لیکن حقیقت میں معدومی کے خطرے سے دوچار بھی ہے۔
سمندری گائے کی قریب ترین رشتہ دار ’سٹیلر سمندری گائے‘ تھی جو بے تحاشا شکار کیے جانے کی وجہ سے اٹھارویں صدی میں معدوم ہوگئی۔
ماحول کے تحفظ کے حامی خبردار کر رہے ہیں کہ سمندری گائے کے تحفظ کے لیے پختہ اقدامات نہ کیے گئے تو یہ جانور بھی دنیا سے ختم ہو جائے گا۔

لیکن سعودی عرب میں اس گریز پسند جانور کے جُھنڈ، پناہ میں ہیں۔ بحیرۂ احمر اور خلیجِ عرب کے ساحلوں کے آس پاس، سمندری گائے، سکون کے ساتھ سمندری گھاس چرتی رہتی ہے جو اس جانور کا ایسا ٹھکانہ ہے جسے مملکت محفوظ رکھنے کے لیے بہت پُرعزم ہے۔
سمندری گائے کم گہرے پانیوں میں سمندری گھاس پر گزارہ کرتی ہے۔ لمبے جسم والی یہ گائے جس کے بازو ڈولفن جیسے ہیں اور دم چوڑی ہے لیکن اس کا سب سے حیران کن پہلو وہ تیز رفتاری ہے جس سے یہ تولیدی عمل سے گزرتا ہے۔

سعودی عرب ان چند ملکوں میں ہے جہاں سمندری گائے کے بچاؤ کی واضح کوششیں کی گئی ہیں۔ ’نیشنل سینٹر فار وائلڈ لائف‘ نے سمندری گائے کی نقل و حرکت کو دیکھنے کے لیے سیٹیلائٹ کے ذریعے ٹریکنگ کر رکھی ہے اور اس کے بارے میں طویل مدتی سٹڈیز بھی کی گئی ہیں۔
اس سال ہفتۂ ماحولیات کے دوران سینٹر نے عوامی مہم شروع کی جس میں پبلک سے کہا گیا کہ وہ آبی حیات کے ماحولیاتی نظام کو متوازن رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
مملکت کے ساحل، سمندری گائے کے زمروں کی آخری پناہ گاہیں ہیں۔ بحیرۂ احمر میں ان کے لیے خوراک کے اہم ذرائع موجود ہیں جبکہ دنیا میں خلیج عرب میں آبی حیات کی سب سے زیادہ آبادی پائی جاتی ہے جس کا تخمینہ سات ہزار جانور ہیں۔

ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ موسمی نقل مکانی کے دوران خلیج کی چراہ گاہیں، جانوروں کو کتنا سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔
ان کی حفاظت کے خیال سے سعودی حکام نے سخت قوانین متعارف کرائے ہیں جن میں سمندری گائے کا شکار یا اسے نقصان پہنچانے پر ایک ملین سعودی ریال تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
لیکن اس معاملے میں سعودی عرب اکیلا نہیں۔ مملکت نے 2013 میں ابوظبی میں ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سمندری گائے کے ٹھکانوں کو محفوظ کیا جانا تھا۔
