Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ غزہ جنگ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں ایہود اولمرٹ نے غزہ جنگ کو ’ایک غیرضروری جنگ‘ قرار دیا (فوٹو: عرب نیوز)
اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
عرب نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو کھل کر تنقید کا سامنا بنایا اور ان پر نسل کشی کا الزام لگاتے لگاتے رہ گئے۔
ایہود اولمرٹ کا کہنا تھا کہ اگرچہ سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل کا ردعمل درست تھا تاہم اب یہ لڑائی ناقابل برداشت ہو چکی ہے اور ’اسرائیلیوں کے لیے موت کا پھندہ‘ بن رہی ہے۔
2006 سے 2009 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے ایہود اولمرٹ کے مطابق ’مارچ 2025 میں ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد شروع ہونے والی پوری جنگ ناجائز ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’70 فیصد سے زائد اسرائیلی اس ناجائز جنگ کی مخالفت کرتے ہیں، جس میں بہت سے فوجی مر جائیں گے جبکہ یہ یرغمالیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بھی ہے۔ اس جنگ میں بلاوجہ ہزاروں فلسطینی مارے جائیں گے۔ یہ فریقین کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسی جنگ جنگی جرائم میں آتی ہے اور میں اس کا ذمہ دار موجودہ وزیراعظم کو ٹھہراتا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلیوں کی بڑی تعداد کو اب یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ جنگ اسرائیل کے وسیع دفاع اور یرغمالیوں کے خاندان والوں کے لیے نہیں بلکہ نیتن یاہو کے ذاتی مقاصد کے لیے ہے۔
ان کے بقول ’اب سب اسرائیل میں یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک غیرضروری جنگ ہے اور اس کو جاری رکھنے میں اسرائیل کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ وزیراعظم کے ذاتی مفادات کے لیے لڑی جا رہی ہے اور یہ بات ہر کوئی کر رہا ہے۔‘

ایہود اولمرٹ نے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اب غزہ میں جنگ کا دائرہ مزید بڑھایا جا رہا ہے جو کہ انتہائی گنجان آباد علاقہ ہے جہاں حماس کے لوگ عام شہریوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ اسرائیلیوں کے لیے موت کا پھندہ ہو گا۔ جس جنگ سے ملک کو فائدہ نہ ہو وہ جنگی جرائم میں آتی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں اب بھی یقین ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کرنا چاہیے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں یہ بیان یاد نہیں کہ کب دیا تھا۔
یہ برطانوی براڈکاسٹر پائرز مورگن کو دیے گئے انٹرویو کا ایک کلپ ہے جو دو جون کو سامنے آیا تھا جس میں اولمرٹ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا نیتن یاہو کا ہیگ میں ٹرائل ہونا چاہیے۔
اس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’دیکھیں، اس پر بات ہونی چاہیے اور اس حقیقت کے تناظر میں کہ میں وزیراعظم تھا اور لوگ مجھے سننا چاہتے ہیں، اس لیے میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہاں۔‘
اولمرٹ نے 2009 میں کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ دیا تھا اور بعدازاں ان کو بدعنوانی کے جرم میں سزا بھی ہوئی، تاہم اس کے باوجود بھی ان کو یقین ہے کہ ان کی آواز وزن رکھتی ہے اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس وقت زیادہ تر اسرائیلی شہری نیتن یاہو کے مخالف ہیں۔
پچھلے دنوں اسرائیل میں غزہ جنگ کا دائرہ بڑھانے کے خلاف بڑے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے جس سے دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل حکومت کے حوالے سے لوگوں کے رویے میں آنے والی بڑی تبدیلی واضح ہوتی ہے۔

غزہ میں سات اکتوبر 2023 سے جنگ جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایہود اولمرٹ کا کہنا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے تو سب کچھ مختلف ہوتا، وہ وہی کرتے جو وقت کی ضرورت ہوتی۔ دو ریاستی حل پر بات کرتے اور فلسطینی قیادت کو بھی آمادہ کرنے کی کوشش کرتے۔
انہوں نے اسرائیل فلسطین امن عمل کی ناکامی کے حوالے سے کہا کہ اس کا تمام الزام صرف اسرائیل پر نہیں لگایا جا سکتا انہوں نے اپنے دور میں نے ان کو ریاست کی پیشکش کی تھی جو کہ انہوں نے مسترد کر دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں 2008 اور 2009 کو نہیں بھولنا چاہیے جب میں وزیراعظم تھا میں نے فلسطینی صدر کو ایک جامع امن منصوبے کی تجویز دی تھی جس کی بنیاد 67 کے بارڈرز کے تحت ہوتی۔‘
اس منصوبے کے مطابق اسرائیل نے مغربی کنارے کے زیادہ تر علاقے سے نکل جانا تھا جبکہ الحاق شدہ علاقوں کے لیے اراضی کا تبادلہ، غزہ اور مغربی کنارے کو جوڑنے کے لیے راہداری، یروشلم کے مقدس مقامات کے لیے مشترکہ یا بین الاقوامی انتظامیہ، علامتی طور پر فلسطینیوں پناہ گزینوں کی کم تعداد کو اسرائیل میں قبول کیا جانا اور باقی کے لیے دوبارہ آباد کاری کے نکات شامل تھے۔

 

شیئر: