لاہور کا دریائے راوی ان دنوں سیلابی ریلوں کی زد میں ہے۔ پانی کا شور، ڈوبنے کا خوف اور کناروں پر بسنے والوں کی آزمائش، مگر اس ہنگامے میں بھی کچھ ایسے لمحات جنم لیتے ہیں جو یادگار بن جاتے ہیں۔
ایک ایسا ہی یادگار واقعہ حال ہی میں پیش آیا جس نے انوکھے انداز میں بھینس کی ملکیت کا دعویٰ ثابت کیا۔
دریائے راوی میں سیلاب کے باعث نہ صرف انسان بلکہ جانور اور مویشی بھی خطرے میں ہیں۔ یہ مشکل وقت دریا کے کناروں پر آباد سینکڑوں خاندانوں کے لیے کڑی آزمائش لے کر آیا ہے مگر اس مشکل گھڑی میں محکمہ سول ڈیفنس کے اہلکار ہر لمحہ مستعد ہیں۔
مزید پڑھیں
-
دریائے چناب، راوی اور ستلج میں خطرناک سیلابی صورت حال، فوج طلبNode ID: 893827
ان کے سامنے ایک ہی مقصد ہے: کوئی جان ضائع نہ ہو، خواہ وہ انسان کی ہو یا کسی بے زبان جانور کی۔
گذشتہ روز انہی اہلکاروں کے حصے میں ایک ایسی انوکھی اور دلچسپ کہانی آئی جس نے سب کو چونکا دیا۔ یہ کہانی ایک بھینس کے ریسکیو سے شروع ہوئی اور اس کے اصل مالک کی پہچان تک پہنچی۔ سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ مالک اور بھینس کا رشتہ صرف ایک آواز کے ذریعے ثابت ہوا۔
سیلاب میں لاپتا ہونے اور پھر ملنے والی بھینس
محمد اکمل، جو دریائے راوی پر سول ڈیفنس کے انچارج ہیں، پراعتماد انداز میں بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم نے اس پورے عرصے میں کسی کو ڈوبنے نہیں دیا۔ ’ہمارے لیے سب سے زیادہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ راوی میں اب تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ جو بھی ہمیں پانی میں دکھائی دیا، ہم نے فوراً ریسکیو کیا۔‘
ان کے مطابق انسانوں کے ساتھ ساتھ کئی جانور بھی بچائے گئے جن میں بلیاں، کتے اور بھینسیں شامل ہیں۔
ان دنوں ہی سگیاں پل کے قریب پانی میں ایک بھینس تیرتی نظر آئی۔ اہلکار فوری حرکت میں آئے۔ کڑی محنت کے بعد بھینس کو کنارے پر لایا گیا۔ مگر یہ ریسکیو اپنی جگہ، اصل امتحان تو اس وقت شروع ہوا جب بھینس خشکی پر پہنچی۔
ایک بھینس، کئی دعویدار
جیسے ہی بھینس محفوظ کنارے پر لائی گئی تو اردگرد کھڑے لوگوں میں شور مچ گیا۔ ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ یہ بھینس انہی کی ہے۔

کوئی اپنے حق میں دلیل دیتا تو کوئی دوسرا اس کی تردید کرتا۔ محمد اکمل ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ایک بھینس تھی اور دعویدار کئی۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کہا یہ اگر اس کی بھینس ثابت نہ ہوئی تو وہ ہمیں ایسی دس بھینسیں دینے کو تیار ہے۔‘
یہ صورتِ حال اہل کاروں کے لیے معمہ بن گئی۔ وہ آخر کس بنیاد پر فیصلہ کرتے کہ بھینس کا اصل مالک کون ہے؟
’بھلی‘ کہنے پر پلٹنے والی بھینس
اسی دوران ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا کہ وہ بچپن سے اس بھینس کو پال رہا ہے جس کا نام اس نے بڑے پیار سے ’بھلی‘ رکھا ہوا ہے۔
اس نے اہلکاروں سے کہا کہ ’میں اگر اسے بھلی کہہ کر پکاروں گا تو یہ فوراً میری طرف دیکھے گی اور آواز دے گی۔ یہی اس کی سب سے بڑی پہچان ہے۔‘
محمد اکمل اور ان کی ٹیم یہ سن کر متجسس ہو گئی۔ سب کی نظریں اس لمحے پر جم گئیں۔ جیسے ہی اس شخص نے پیار بھرے لہجے میں ’بھلی‘ کہا، بھینس نے فوراً اپنی گردن گھمائی، اس کی طرف دیکھا اور آواز نکالی۔
یہ منظر وہاں موجود ہر شخص کے لیے حیرت انگیز اور دل کو چھو لینے والا تھا۔
صرف نام پر فیصلہ نہیں ہوا
تاہم سول ڈیفنس نے معاملے کو صرف اسی ایک لمحے پر ختم نہیں کیا۔ محمد اکمل کے مطابق ’ہم نے صرف نام پکارنے پر بھینس حوالے نہیں کی۔ مکمل تصدیق کی گئی۔ آس پاس کے لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی، شواہد اکٹھے کیے گئے۔ اس کے بعد ہمیں یقین ہو گیا کہ یہی اصل مالک ہے۔ پھر بھینس اس کے حوالے کر دی گئی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ پورا معاملہ اہل کاروں کے لیے بھی اطمینان کا باعث بنا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جانور واقعی اپنے مالک کے پاس واپس جا رہا ہے۔‘
اہل کاروں کی دن رات کی جدوجہد
محمد اکمل نے اپنی ٹیم کے حوالے سے بتایا کہ ’ان کے اہل کار دن رات مسلسل ڈیوٹی پر ہیں۔ بہت سوں نے سرِدست اپنے گھروں کا رُخ نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم راوی کے محافظ ہیں اور یہی خدمت کا وقت ہے۔‘
ان کا دفتر سگیاں پل کے قریب واقع ہے، جہاں سے دریا کا منظر براہِ راست دکھائی دیتا ہے۔ اکثر یہاں ایسے مواقع بھی آ جاتے ہیں جب کوئی پل سے چھلانگ لگا دیتا ہے۔ ایسے وقت میں سول ڈیفنس کے تربیت یافتہ غوطہ خور لمحوں میں پانی میں کود کر ڈوبنے والوں کی جان بچاتے ہیں۔
محمد اکمل کہتے ہیں کہ ’ہمارا کام صرف زندگی بچانا نہیں بلکہ لوگوں کے چہروں پر سکون لانا ہے۔ جب ہم نے بھلی کو اس کے مالک کے حوالے کیا تو اس کے چہرے کی خوشی دیکھ کر ہمیں اپنے کام پر اور بھی فخر محسوس ہوا۔‘
یہ واقعہ بظاہر ایک جانور کی بازیابی کی کہانی ہے، لیکن درحقیقت یہ اس تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو انسان اور جانور کے درمیان بن سکتا ہے۔ ایک نام، ایک آواز، اور برسوں کی مانوسیت وہ کڑی ہے جو کسی بھی رشتے کو پہچان دیتی ہے۔
دریائے راوی کے کنارے پیش آنے والا یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ہمدردی اور ذمہ داری صرف انسانوں تک محدود نہیں، بلکہ ہر جاندار کی جان کی حفاظت ہی اصل خدمت ہے۔