لاہور کے سب سے زیادہ چرچے میں رہنے والے قتل کیسز میں سے ایک، بالاج قتل کیس، ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کیس نے نیا موڑ لیا جب مرکزی ملزم خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ کئی ماہ روپوش رہنے کے بعد اچانک منظرعام پر آ گئے۔
وہ خود لاہور کے سی سی پی او صدیق کمیانہ کے سامنے پیش ہوئے اور اس کے بعد عدالت سے عبوری ضمانت لے لی۔ اس پیشی کو لاہور کی گلیوں میں طاقت، خوف اور پرانی دشمنیوں کی کہانی کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے۔
پولیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پہلے ہی اپنی رپورٹ میں واضح کر چکی ہے کہ امیر بالاج کے قتل کا منصوبہ گوگی بٹ اور طیفی بٹ نے تیار کیا۔ پولیس کے مطابق شواہد اور گواہان کی گواہی دونوں اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قتل محض ایک حادثاتی جھگڑا نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ گوگی بٹ کی عبوری ضمانت عارضی ہے اور پولیس عدالت سے ان کی ضمانت منسوخی کی استدعا کرے گی۔
مزید پڑھیں
-
لاہور انڈر ورلڈ، جہاں لڑائی نصف صدی بعد بھی جاری ہےNode ID: 838076
-
لاہور کے انڈر ورلڈ کی لڑائی میں پولیس کس طرف کھڑی ہے؟Node ID: 878163
یہ تازہ ترین پیش رفت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے: کیا انصاف کا پہیہ آخرکار اپنی منزل کی طرف بڑھے گا یا یہ مقدمہ بھی لاہور کی دیگر پرانی دشمنیوں کی طرح کسی سیاسی یا سماجی دباؤ کے نیچے دب کر رہ جائے گا؟
اس کیس میں اب تک کیا ہوا؟
یہ کہانی دراصل فروری 2024 سے شروع ہوتی ہے جب لاہور کے علاقے چُوہنگ میں ایک شادی کی تقریب کے دوران اندھادھند فائرنگ ہوئی۔ اس تقریب میں ٹرکاں والا خاندان کے اہم رکن امیر بالاج کو قریب سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ چند لمحوں میں خوشی کا سماں ماتم میں بدل گیا۔ حملہ آور کو موقع پر موجود محافظوں نے بھاگنے کی کوشش کے دوران ہلاک کر دیا، لیکن یہ واقعہ لاہور کی پرانی دشمنیوں کو ایک بار پھر زندہ کر گیا۔
امیر بالاج کوئی عام شخص نہیں تھے۔ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو کئی دہائیوں سے لاہور کی سیاست اور کاروبار دونوں میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ان کا قتل محض ایک شخص کی جان کا ضیاع نہیں بلکہ پورے علاقے میں طاقت کے توازن کو ہلا دینے والا واقعہ تھا۔
پولیس کی ابتدائی تفتیش میں کئی نام سامنے آئے جن میں سب سے نمایاں گوگی بٹ اور طیفی بٹ تھے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بالاج کے قریبی ساتھی احسن شاہ پر بھی شک کیا گیا۔ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ احسن شاہ نے مخالفین کو بالاج کی نقل و حرکت کی حساس معلومات فراہم کی تھیں۔

اگست 2024 میں ایک نیا موڑ آیا۔ احسن شاہ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اس ہلاکت نے پورے کیس کو مزید متنازع بنا دیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ محض ایک ’پولیس کہانی‘ تھی تاکہ ایک اہم گواہ کو راستے سے ہٹایا جا سکے، جبکہ پولیس نے دعویٰ کیا کہ احسن شاہ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ اس واقعے نے متاثرہ خاندان کو مزید مایوسی میں دھکیل دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انصاف کی راہیں مزید تنگ ہو رہی ہیں۔
یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ کچھ ہی عرصے بعد گوگی بٹ کے بہنوئی کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ ایک کے بعد ایک ہلاکتوں نے یہ تاثر مزید گہرا کر دیا کہ لاہور کی پرانی گینگ وار دوبارہ پوری شدت سے زندہ ہو گئی ہے۔ ایسے میں یہ سوال مزید اہمیت اختیار کر گیا کہ آیا یہ مقدمہ کسی انجام کو پہنچے گا یا ایک اور طویل اور خونریز داستان کا آغاز ہے۔
اس دوران پولیس نے اپنی جے آئی ٹی رپورٹ میں واضح کیا کہ بالاج کا قتل منظم منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حملے کے لیے کرائے کی گاڑی حاصل کی گئی، اسلحہ فراہم کیا گیا اور حملہ آوروں کو منصوبے کے تحت آگے بڑھایا گیا۔ تحقیقات نے گوگی بٹ اور طیفی بٹ کو براہ راست اس قتل سے جوڑ دیا۔ پولیس کے مطابق ملزمان کے درمیان فون کالز اور روابط کے ثبوت بھی موجود ہیں جنہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
گوگی بٹ اگرچہ طویل عرصے تک روپوش رہے، لیکن آخرکار انہوں نے منظرعام پر آ کر عبوری ضمانت حاصل کی۔ عدالت نے 15 ستمبر تک انہیں مہلت دی ہے، مگر پولیس پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ وہ ان کی ضمانت منسوخ کرانے کی کوشش کرے گی۔ اس طرح مقدمہ اب ایک نازک مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں عدالت کے فیصلے اور پولیس کی پیش رفت طے کرے گی کہ انصاف ہوگا یا یہ بھی ایک ادھوری کہانی بن کر رہ جائے گا۔

لاہور کی گینگ وار کا پس منظر
بالاج قتل کیس کو سمجھنے کے لیے لاہور کی گینگ وار کی طویل تاریخ کو جاننا ضروری ہے۔ یہ دشمنی آج کی نہیں بلکہ گذشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس میں سب سے نمایاں دو خاندان ہیں: ٹرکاں والا خاندان اور بٹ خاندان۔ دونوں کا تعلق لاہور کے نواحی علاقوں سے ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ خاندانی جھگڑے شہر کے مرکز تک پھیل گئے۔
ان دشمنیوں کی جڑیں زمینوں کے جھگڑوں، مقامی سیاست میں طاقت کے حصول اور کاروباری مفادات میں پوشیدہ ہیں۔ ابتدا میں چھوٹے موٹے جھگڑے وقت کے ساتھ بڑے تصادم میں بدل گئے۔ ایک خاندان کا فرد مارا جاتا تو جواباً دوسرے خاندان کے افراد کو نشانہ بنایا جاتا۔ یوں ایک خونریز سلسلہ شروع ہوا جو وقتاً فوقتاً نئی وارداتوں کی شکل میں سامنے آتا رہا۔
لاہور کی مقامی سیاست نے بھی ان دشمنیوں کو مزید بھڑکایا۔ مختلف سیاسی جماعتیں ان خاندانوں کے ساتھ اپنے مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتی رہیں۔ کبھی ایک خاندان کو سیاسی پشت پناہی ملی تو کبھی دوسرا طاقتور بنا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان گروہوں کو نہ صرف مقامی سطح پر اثر و رسوخ ملا بلکہ پولیس اور عدالتی کارروائی بھی اکثر دباؤ اور سفارش کے سائے میں رہی۔
